Search Results for: ahmad Naeem

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی)

Prof. Ahmad Naeem Chisti

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی

’چھانگیا رکھ‘ بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی ہے جو سن دو ہزار دو میں پنجابی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متعدد زبانوں میں تراجم کیے جا چکے ہیں۔ دو ہزار دس میں آکسفورڈ پریس نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یوں ’چھانگیا رکھ‘ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی۔

’چھانگیا رکھ‘ کو ’دلت لٹریچر‘ میں اہم مقام حاصل ہے۔ دلت لٹریچر میں ہندوستان کے اچھوت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ دلت لٹریچر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی پکار ہے۔

بلبیر مادھوپوری ہندوستان کے ضلع جالندھر کے گاؤں مادھو پور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاعر ہیں۔ پنجابی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ مترجم اور محقق بھی ہیں۔

بلبیر مادھوپوری نے کتاب کا عنوان بہت خوبصورت چنا ہے۔ ’چھانگیا رکھ‘ ! پنجابی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسے درخت کو کہتے ہیں جسے چھانگ دیا گیا ہو۔ جس کی ٹہنیاں اور شاخیں کلہاڑی سے کاٹ دی گئی ہوں۔ چھانگیا رکھ دوسرے درختوں سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔ قدرتی پیڑوں والی خوبصورتی اور کشش سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ٹنڈ منڈ سا ہو جاتا ہے۔ چھانگیا رکھ دلت کمیونٹی، نچلے اور مظلوم طبقے، حتی کہ ہر مظلوم شخص کی علامت بنتا ہے جنہیں آزادی اور عزت کے ساتھ جینے نہیں دیا جاتا۔ سماج میں ان کو پنپنے کے مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں آتے۔ ان کو چھانگیا رکھ بنا دیا جاتا ہے۔

بلبیر مادھوپوری کا چھانگیا رکھ جہاں مظلومیت کا استعارہ ہے وہاں یہ مزاحمت، نئی زندگی اور ترقی کا بھی استعارہ ہے۔ کیونکہ پیڑ کو جب چھانگا جاتا ہے تو پھر اس پہ نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز اور دلکش ہوتی ہیں۔

چھانگیا رکھ میں بلبیر مادھوپوری نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی دکھائی ہے۔ وہ کٹھن حالات دکھائے ہیں جن سے اس کا خاندان گزرا۔ یہ ایسے طبقے کی سچی داستان ہے جو محرومی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہے۔ یہ محرومی اور ذلت معاشرے اور نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی دین ہے۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ان کے طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ غربت یا محرومی نہیں ہے بلکہ وہ تحقیر ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ بستی ہے۔ یہ کتاب ہمیں ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ دلت کمیونٹی، شیڈول ذاتیں، چمار، اچھوت اور دیگر ’نمانے لوک‘ ذات پات کے ایسے بے رحم نظام میں پھنسے ہیں جن میں وہ آزادی سے محروم ہیں۔ نہ شخصی آزادی ہے نہ سیاسی۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ذات پات کا یہ نظام خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ انسانوں کی ہی تخلیق ہے۔

یہ کتاب غربت کا بھیانک چہرہ بھی دکھاتی ہے۔ جس طبقے کو مساوات اور آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے وہ غربت میں دھنستا جاتا ہے۔ بلبیر مادھو پوری کا خاندان اور ان کی کمیونٹی کے دیگر لوگ انتہائی غربت میں جیون بسر کرتے ہیں۔ دادی مردہ جانوروں کا گوشت کھانے کا دور بھی یاد کرتی ہے۔ وہ لوگ مردہ جانوروں کی چربی کو گھی کی جگہ استعمال کرتے تھے۔

نچلی ذات کے لوگوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ گاؤں میں ان کی آبادی بھی ایک طرف الگ ہوتی ہے۔ وہ گرودوارے نہیں جا سکتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو نہیں چھو سکتے۔ ان کو انسان ہونے کا مقام بھی نہیں دیا جاتا۔

بلبیر مادھو پوری کے نزدیک دلت کمیونٹی کی مساوات اور برابری کے حصول کی یہ تحریک یتیم ہے۔ معاشرہ اس تحریک کا بھرپور ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی مذہبی یا سیاسی تحریک ایمانداری سے ذات پات کے نظام کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتی۔ ذات پات کے نظام کی جڑیں بدقسمتی سے بہت گہری سرایت کر چکی ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ اور دلت لٹریچر امریکہ کے کالے لوگوں کے لٹریچر سے مماثلت رکھتا ہے۔ دلت اور بلیک طبقے اپنے اپنے ممالک میں ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ دونوں طبقات کو عزت، آزادی اور قبولیت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب تھا کہ امریکہ میں ایک دن ایسا آئے گا کہ گوروں اور کالوں کے بچے ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ اسی طرح بلبیر مادھو پوری کا بھی خواب ہے کہ ایک دن ہندوستان میں ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ انسان اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور کردار سے جانچے جائیں گے۔ سب انسان برابر تصور کیے جائیں گے اور سبھی عزت و تکریم کے حقدار ٹھہریں گے۔

انیس سو اٹھاون میں جب مارٹن لوتھر کنگ ہندوستان آئے اور انہوں نے دلت لوگوں کی مصیبتوں کو جانا تو انہوں نے کہا کہ ’میں بھی ایک دلت ہوں کیونکہ ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں۔‘

’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر مادھوپوری ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ جب لوگ ذات پات کو مذہب اور خدا کی مرضی سے جوڑتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ ایسا مذہب جو انسانوں کی برابری نہیں چاہتا، جو مساوات اور انسانوں کی تکریم نہیں دیکھ سکتا تو پھر ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟

بلبیر مادھوپوری تعلیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ مظلوم طبقے کے پاس تعلیم کی سیڑھی ہے جو وہ بہتر جگہ پر پہنچنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر کے بھائیا (والد) بھی چند ’اکھر‘ پڑھ کر محرومی اور ذلت کی دلدل سے نکلنے پر زور دیتے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ میں دیہاتی زندگی کے سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ دیہاتی کلچر دیکھنے والوں کے لئے بھی یہ کتاب بہترین تحفہ ہے۔

یہ کتاب ایک آئینہ ہے۔ اس میں ہمیں اپنے معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔ ظلم، طبقاتی کشمکش اور کمزور طبقات کی مجبوریاں جو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں وہ اس کتاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی عالمگیریت اس کتاب کی بڑی خصوصیت ہے۔

کتاب کی نثر میں روانی اور سادگی ہے۔ بلبیر مادھو پوری چونکہ شاعر ہیں تو نثر میں بھی شاعری کی مٹھاس اور موسیقی گندھی ہوئی ہے۔ دیہاتی رہن سہن سے لیے گئے استعارے بہت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ پنجابی، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اسے پڑھیے اور اپنے ذہن کے دریچوں میں بلبیر مادھو پوری کی جلائی ہوئی شمع کی کرنیں بکھیرئیے۔ اور بلبیر مادھو پوری کے اس خوبصورت پیغام کو دل میں جگہ دیجیے کہ تمام انسان قابل عزت ہوتے ہیں اور محبت کرنے کے قابل بھی۔

چند دن قبل ’چھانگیا رکھ‘ پر ایک تعارفی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تو بلبیر مادھوپوری جی نے سوشل میڈیا کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا۔ وٹس ایپ پر ان کی کال آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پنجابی میں بات کر رہے تھے تو مجھے اپنے ہی گاؤں واسی لگتے تھے۔

میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسی شاہکار کتاب کے مصنف میرے کانوں میں گیان گھول رہے تھے۔ انہوں نے میرے تجزیے کی تعریف کی۔ بابا فرید الدین کی شاعری پہ بات کی۔ اپنے گاؤں مادھوپور کے بارے میں بھی باتیں کیں۔ بتایا کہ بٹوارے میں جب مادھو پور کے مسلمان پریوار گاؤں چھوڑ کے نئے ملک کی طرف گئے تو مادھو پور میں افسوس کا یہ عالم تھا کہ گاؤں میں اس دن کسی نے کھانا نہیں پکایا تھا۔ محبت کی ایسی کہانیاں بلبیر مادھو پوری شاعری اور نثر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ سچے اور کھرے ادیب جو ٹھہرے۔

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »

Writters

Writers pave the way for revolution in any society. The words that come out of the tip of a writer’s pen determine the direction of society. Authors at Voice of Libraries are known for their eloquence. You can find a list of these Voice of Libraries authors here.

Writer of VOL

Writers are the capital of any nation and the flagship of a country. Here is the list of all the respected writers of Voice of Libraries.

VOL Writers

Writters Read More »

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ

ایک کتابی کیڑے دوست نے میری کاہلی اور سستی کو کانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور مشورہ دیا کہ اگر ضخیم کتابیں پڑھنا مشکل ہے تو چھوٹی کہانیاں ہی پڑھ لیا کرو۔ اس نے زور دیا کہ میں گلے کا ہار، آخری پتا، میگی کا تحفہ، رسی کا ٹکڑا اور ایک گھنٹے کی کہانی جیسے چند افسانے ضرور پڑھوں۔

دوست نے بتایا تھا کہ Story of an hour کا شمار دنیا کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جو ہماری زنگ آلود سوچ پہ چوٹ کرتی ہیں اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ کم بخت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ میں نے عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی آج بھی دل و دماغ اس کے سحر میں جکڑا ہے۔ دو اڑھائی صفحوں کی اس چھوٹی سی کہانی کے تقریبا ایک ہزار لفظوں میں ہزارہا صدیوں کے دکھ عیاں ہیں اور مجبوریوں کی لمبی داستاں کو سمیٹا گیا ہے۔

یہ مسز میلرڈ کی کہانی ہے جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ خبر ہے کہ اس کا خاوند ریل گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ مسز میلرڈ کی بہن اور رچرڈ (خاوند کا دوست) اسے افسوسناک خبر سنانے میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے فقروں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ خاوند کی موت کا سنتے ہی مسز میلرڈ رونا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دوسری منزل پہ واقع کمرے میں اکیلی چلی جاتی ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کرکھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے۔ باہر فطرت کے خوبصورت نظارے اور خوشنما زندگی نظر آتی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک غیر متوقع اور عجیب خوشی محسوس کرتی ہے۔ خدا سے اپنی لمبی زندگی پانے کی دعا مانگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند کی موت کا افسوس بھی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ آخری رسومات پہ پھوٹ پھوٹ کے روۓ گی۔ مسز میلرڈ کی بہن اوپر آتی ہے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہتی ہے۔ مسز میلرڈ بہن کے ساتھ نیچے چلی جاتی ہے۔

گھر کا مرکزی دروازہ کھلتا ہے اور اس کا خاوند مسٹر میلرڈ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاوند کر زندہ دیکھ کر مسز میلرڈ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اچانک خوشی موت کا سبب بنی۔

امریکی مصنفہ کیٹ چاپن (Kate Chopin) اس کہانی کی خالق ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی 1994 میں لکھی جو پہلی بار Dream of an Hour کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ کیٹ چاپن نے اپنے ناول The Awakening اور باقی کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی عورتوں کی مجبوریوں، استحصال اور حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈرن فیمنزم کی جڑیں Story of an Hour کے لفظوں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔

Kate Chopin

خاوند کی موت کے بعد مسز میلرڈ آزادی اور من چاہی زندگی کے سپنے کو پورا ہوتی دیکھتی ہے۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی اس کے آزاد و روشن مستقبل اور خوبصورت زندگی کی علامت ہے۔ کھڑکی سے نظر آنے والے ہوا کے دوش گھومتے روئی کے گالوں سے بادل، درختوں کی چوٹیاں جن سے بہار کے رنگ سبز پتوں کی صورت پھوٹے ہیں، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا گہرا نیلا آسمان، دور سے آتی کسی گانے کی مدھر لے، گلی سے اٹھتی زندگی سے بھرپور آوازیں، ہوا میں ملی بارش کی مہک اور موسیقی سے بھری چڑیوں کی چہچہاہٹ سب اس دل لبھانے والے جیون کا استعارہ ہیں جو خاوند کے ہوتے اسے نصیب نہ ہوا۔

یہ ہمارے معاشرے کی المناک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے مرد نے یہ کھڑکی بند کر رکھی ہے۔ خاوند کے جیتے جی بیوی ایسی زندگی نہیں جی سکتی۔ خاوند کی موت پہ مسز میلرڈ بار بار سرگوشی کرتی ہے۔ ‘ آزاد، جسم اور روح آزاد ہو گئے‘

کیٹ چاپن کے نزدیک ایک عورت کے لیے خاوند سے چھٹکارا پانا اہم نہیں بلکہ ایسی زندگی کی اہمیت ہے جس کی وہ خود مالک ہو۔ کیٹ چاپن مسز میلرڈ کی خوشی کی وجہ لکھتی ہیں۔

 آنے والے برسوں میں وہ کسی دوسرے کے لیے نہیں جیے گی، اپنی زندگی اپنے لیے جیۓ گی۔ اس کی مرضی کو کسی دوسرے شخص کی مرضی توڑ مروڑ نہیں سکے گی۔‘

انیسویں صدی کے آخر میں جب یہ کہانی لکھی گئی تو امریکی معاشرے میں اس کو خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ کہانی صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے وقت سے پہلے لکھی گئی۔ ہمارے ملک میں شاید ایسے خیالات کو آج بھی بہت سارے لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔

 

میلرڈ خاوند کے بعد ایک نئی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے۔ یہ خواب اتنا دلکش ہے کہ وہ دعا مانگتی ہے کہ وہ لمبی زندگی جیے اور آزادی کے احساس کا لطف زیادہ عرصہ اٹھا سکے۔ ایسا خواب اور ایسی دعا پہلی بار اس کی زندگی میں آئے تھے۔ ہم کہانی میں دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کا یہ خواب تعبیر کی منزل نہیں پاتا نہ ہی اس کی دعا شرف قبولیت حاصل کر پاتی ہے۔ بلکہ ایک گھنٹے کے اندر ہی سہانی زندگی جینے کا خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق مسز میلرڈ کی موت خاوند کو زندہ دیکھنے کی اچانک خوشی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن کہانی پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت خاوند کو زندہ دیکھنے کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاوند ہی بیوی کی خوشی کی زندگی جینے میں رکاوٹ ہے۔

ڈاکٹرز کا موت کی غلط اور متضاد وجہ کی تشخیص معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے کہ ہم عورت سے متعلقہ معاملات کو غلط رنگ دیتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ شاید خواتین کے دکھوں کے پیچھے کارفرما اصل وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مسز میلرڈ کی کہانی میں کیٹ چاپن کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی پڑتا ہے۔ کیٹ چاپن کے خاوند کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کی ماں اور گھریلو عورت کو روزی روٹی کمانے کے لیے ایک آرٹسٹ اور قلم کار کا رول اپنانا پڑا تھا۔ کیٹ چاپن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ کامیاب لکھاری بن گئیں۔ یہ کہانی بھی عورت کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا پیغام دیتی ہے۔

اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو دیکھنے میں خوش ذائقہ نظر آتا ہے اور چکھنے پہ کڑوا ثابت ہوتا ہے۔ جو بھی کھاۓ، وہ پچھتاۓ۔ شادی شدہ عورت کے پاؤں میں پڑی سخت مجبوریوں، بے شمار ذمہ داریوں اور بے جا پابندیوں کی زنجیریں جان لیوا ہیں۔ شادی کے بعد مرد باہر کام کرتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ لہذا گھر سے باہر کے تمام مواقع عورت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ عورت نے آگے بڑھنے، دنیا میں اپنا مقام بنانے، روشن مستقبل کے حصول اور زندگی کو انجواۓ کرنے کے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چار دیواری ہی میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ مسز میلرڈ بیوی کے ایسے ہی پراسرار رول میں پھنسی نظر آتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے کڑے مطالبات ہیں جن کے پاٹوں میں عورت پسی چلی جاتی ہے۔

Story of an hour میں رونا دھونا کافی ملتا ہے۔ کہانی کی ہیرؤئن خاوند کی موت پہ روتی ہے۔ جب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تب بھی ڈسکارے بھرتی رہتی ہے۔ پھر جب اپنے خیالوں میں خاوند کے جنازے میں شریک ہے پھر بھی رونے کا ذکر ملتا ہے۔ خیالوں ہی میں خاوند کو دفنانے کے بعد رونے کا ذکر نہیں آتا۔ اس کا رونا دھونا تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک خاوند اس دنیا میں موجود ہے۔

مسز میلرڈ دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور یہ عارضہ بھی خاوند کی عطا معلوم ہوتا ہے۔ اور کہانی کے آخر پر خاوند ہی جان لیوا صدمے کی وجہ بنتا ہے۔ یہی عارضہ اس کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے ہی ناسور جو عورت کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، وہ معاشرے کی عطا ہیں۔

یہ کہانی امریکی مصنف Charlotte Perkins Gilman کی کہانی The Yellow Wallpaper سے بھی ملتی جلتی نظر آتی ہے جس میں ایک عورت اس قید اور پابندیوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے شوہر نے اس پہ مسلط کی ہیں۔

یہ کہانی ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی پکار ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ موت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ موت سے پہلے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ خواتین کے لیے اس کہانی میں نصیحت ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ کیٹ چاپن اپنے ناول The Awakening میں لکھتی ہیں۔

“مجھے ہمیشہ ان خواتین پہ افسوس ہوتا ہے جو چلنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سارے زندگی کے چھوٹے چھوٹے نایاب نظاروں سے محروم رہتی ہیں۔”

کیٹ چاپن کی اس چھوٹی سی کہانی میں کتنی بڑی بڑی باتیں کی گئی ہیں۔

 

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »

error: Content is protected !!