سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت (محمد یونس انصاری)

google.com, pub-2362002552074221, DIRECT, f08c47fec0942fa0

Muhammad Younas Ansari

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت

لائبریرین ادارہ معارف اسلامی

 منصورہ لاہور

[email protected]

اسلام نے حصولِ تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ نبی آخر الزمانؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں پہلا لفظ’’ اقرا‘‘(پڑھ) تھا، یعنی علم حاصل کرو۔ اسلام نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض قرار دیا ہے۔

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔اور یہ شعور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کتب بینی کو اپنایا جائے۔ کتاب کو اہمیت دی جائے، مطالعے کو فروغ دیا جائے اور یہ اسی صورت ممکن جب تعلیم کو عام کیا جائے، کتب خانوں کو فروغ دیا جائے۔ اگر ماضی کا مشاہدہ کیا جائے تو مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد پر ہی دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ مسلم دانشوروں کے اس قیمتی علمی سرمائے سے دنیا میں جو جو مستفید ہو تا گیا ،ترقی اس کا مقدر بنتی گئی۔ یورپ نے مسلمانوں کے علمی سرمائے اور کتب سے بے پناہ فائدہ سمیٹا اور آج وہ ترقی کی دوڑ میںہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ کتب سے محبت اورمطالعے کی بنا پر ہی ہوا ہے۔

تعلیم کا عام ہونا ہی ہماری ترقی کا پہلا پیش خیمہ ہے۔ اگر معاشرے کا کارآمد شہری بننا چاہتے ہیں تو وقت ضائع کرنے والے مشاغل کو ترک کر کے کتب بینی کو مشغلہ بنانا چا ہیے اور اس کے لیے ضروری ہے سکول سطح پر کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کتب بینی اور مطالعے کا شوق اگر سکول سطح سے اجاگر کیا جائے، تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ ترقی کے لیے علم بہت ضروری ہے اور ہمارے طالب علم ہی مستقبل کے معمار ہیں۔

آج ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان بنا دیا ہے۔گلوبل ویلج کا خواب دیکھنے والوں نے دنیا کو بس ایک نقشے میں سمو دیا ہے۔جدید ترقی کا ذکر اگر تکنیکی الفاظ میں کیا جائے تو آپ کے ہاتھ میں ابھی جو شے ہے ،بذاتِ خود وہ ایک دنیا ہے اور آپ کے ہاتھ میں موجود اس شے(موبائل) میں او رکچھ نہیں تو ایک ای بک(e.book) ضرور ہے جس سے کسی بھی کتاب کو تلاش کرنا انتہائی آسان ہے ہم چند سیکنڈ میں کتاب نکال کر پڑھ سکتے ہیں مگر جو اہمیت کتاب کی ہے اور جو لطف کتاب کے مطالعے میں ہے،وہ اس بک میں نہیں ہے۔

علم کے لیے جہاں اسکول،کتاب اور استاد کا ہونا ضروری ہے وہاں لائبریری کا ہونا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہم اپنے موبائل یا ٹیبلٹ میں بیک وقت سیکڑوں کتابیں محفوظ رکھ سکتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود لائبریری کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت آج بھی اپنی اسی حالت میں مو جود ہے بلکہ اس میں جدت بھی آ رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میںجدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال ہم سے کہیں زیادہ مگر ان کے ہاںبھی پبلک کتب خانے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ جہا ں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔

’’ اگر ہمارے کتب خانے رات دیر تک کھلے رہیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں سکتی۔‘‘ یہ خوبصورت جملہ مشہور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا۔ ونسٹن چرچل نے یہ جملہ تب ادا کیا جب ان کی افواج دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر (جرمنی)سے بر سرِپیکار تھیں۔

سکول لائبریری کا ایک سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ طالب علم ہر کتاب خرید کر نہیں پڑھ سکتا، اگر سکول میں لائبریری موجود ہو گی تو وہاں سے بہ آسانی کتاب جاری کروا کر گھر لے جا سکتا ہے یا وہیں بیٹھ کر مطالعہ کر سکتا ہے۔سکول کی سطح پرطالب علم کی نشونما ہو رہی ہوتی ہے یہیں پرطلبہ اپنے دیگر دوستوں سے ملتے ہیں، معلومات کا تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کیے گئے مطالعے اور کتب سے متعلق اپنی اپنی آرا پیش کرتے ہیں۔ تجزیے وغیرہ سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کی جھجک دور ہوتی ہے۔ بولنے کا انداز پروان چڑھتا ہے۔ لائبریری صرف کتب بینی کے لیے ایک ماحول ہی مہیا نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ یہ معاشرے میں ایک اہم کردار طلبہ کی شکل میں تخلیق کر رہی ہوتی ہے۔ جیسے ہر شے کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے لیے ایک اچھے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سکول کتب خانوں کا قیام ناگزیر ہے۔

سکول سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اچھی لائبریری قائم کرے۔جس میں

٭۔ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق کتب رکھی جائیں۔

٭          ۔آرام دہ فرنیچر کا اہتما م ہو۔

٭۔ بچوں کی رہنمائی کے لیے ایک تجربہ کار ناظم کتب خانہ کا تقرر کیا جائے۔

٭۔کلاس روم میں کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کو وقتاً فوقتاً اجاگر کیا جائے۔

٭          ۔مطالعہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے، طریقہ کار بتایا جائے۔

٭          ۔ لائبریری میں نئی کتب کا اضافہ ممکن بنایا جائے۔

٭۔مختلف موضوعات پر مقابلہ جاتی اور تقاریر کے پروگرام رکھے جائیں۔

٭          ۔کلاس انچارج کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ طلبہ کو کچھ وقت کے لیے لائبریری میں لائیں۔ اس سے بچوں کی کتب کے ساتھ ذہنی اور قلبی وابستگی مضبوط ہو گی۔

٭۔بچوں میں کتب تحائف دینے کی روایت پروان چڑھائی جائے۔

٭۔اساتذہ وقتاً فوقتاً جائزہ لیں کہ طلبہ کتابوں کا کس حد تک مطالعہ کرتے ہیں۔

٭۔ طلبہ کی کارکردگی رپورٹ میں،مختلف مضامین میں ان کے حاصل کردہ نمبروں کے ساتھ یہ بھی درج کیا جائے کہ طالب علم نے دورانِ سال کتنی کتب،لائبریری سے جاری کرائی اور پڑھی ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!