PC-1 (Project Concept-1) for establishing a digital library
Preparing a PC-1 (Project Concept-1) document for establishing a digital library at Government Faridia Graduate College, Pakpattan requires addressing multiple aspects such as infrastructure, equipment, human resources, and funds. Here’s an in-detailed breakdown, considering the key components you’ve mentioned. The cost figures are hypothetical but can be adjusted based on local market surveys.
1. Introduction
The Government Faridia Graduate College, Pakpattan, aims to establish a state-of-the-art digital library to provide its students with access to modern educational resources. The library will house 20,000 physical books, 30 computers, study areas, and digital resources to enhance learning.
2. Objectives
To modernize the college’s library by creating a digital library section.
Provide digital resources and access to e-books, journals, and online databases.
Facilitate research and study by providing both physical and digital materials.
Provide students and faculty with access to computers for research and educational purposes.
3. Project Scope
Establishing a building or renovating a space for the library.
Setting up shelves for 20,000 books.
Procurement of 30 computers for digital access.
Provision of furniture (study tables, chairs, computer tables, and chairs).
Installation of digital infrastructure (Wi-Fi, internet connections).
Hiring staff for library management and technical support.
4. Physical Library Infrastructure
4.1. Bookshelves
Each standard library shelf (7-8 feet tall) can hold approximately 200-250 books, depending on the size of the books.
20,000 books require around 80-100 shelves.
Estimated cost of a high-quality bookshelf (wood/metal): PKR 25,000 each.
Total cost for bookshelves = 100 shelves × PKR 25,000 = PKR 2,500,000
4.2. Building Space
To accommodate the shelves, study tables, computer tables, and other facilities, an approximate area of 4,000-5,000 square feet would be required.
If a new structure is to be built, the average cost for construction per square foot in Pakistan is PKR 2,500-3,000.
Total cost for building construction = 5,000 sq. ft. × PKR 3,000 = PKR 15,000,000
Alternatively, if renovating an existing structure, renovation costs might be PKR 5,000,000.
4.3. Furniture
Study tables: Required for students studying books or using their laptops. Estimated 10 tables, each seating 6 students.
Estimated cost of a study table = PKR 40,000
Total cost for study tables = 10 tables × PKR 40,000 = PKR 400,000
Study chairs: 60 chairs for 10 tables.
Estimated cost of a study chair = PKR 5,000
Total cost for study chairs = 60 chairs × PKR 5,000 = PKR 300,000
Computer tables: 30 tables, one for each computer.
Estimated cost of a computer table = PKR 15,000
Total cost for computer tables = 30 tables × PKR 15,000 = PKR 450,000
Computer chairs: 30 chairs.
Estimated cost of a computer chair = PKR 6,000
Total cost for computer chairs = 30 chairs × PKR 6,000 = PKR 180,000
5. Digital Infrastructure
5.1. Computers
30 computers are required for the digital section.
Estimated cost of a standard computer with necessary specs (i5 or higher, 8GB RAM, etc.) = PKR 100,000
Total cost for computers = 30 computers × PKR 100,000 = PKR 3,000,000
5.2. Internet/Wi-Fi Setup
A reliable high-speed internet connection, routers, and internal networking setup.
Estimated cost for complete Wi-Fi and networking system = PKR 200,000
5.3. Projector and Screen
For presentations and educational sessions, a projector and screen can be used.
Estimated cost for a projector and screen = PKR 150,000
5.4. Digital Book Subscriptions
Yearly subscriptions to digital libraries, databases, and e-books.
Estimated yearly cost for digital subscriptions = PKR 500,000
6. Human Resources
6.1. Library Staff
Librarian: 1 qualified librarian to manage both the physical and digital library.
Estimated monthly salary = PKR 80,000.
Annual cost = PKR 80,000 × 12 = PKR 960,000
Assistant Librarian: 2 assistants to help in book categorization, digital operations, and assisting students.
Estimated monthly salary = PKR 40,000.
Annual cost = 2 assistants × PKR 40,000 × 12 = PKR 960,000
IT Technician: 1 technician to manage computer systems and troubleshoot.
Estimated monthly salary = PKR 50,000.
Annual cost = PKR 50,000 × 12 = PKR 600,000
Security Staff: 2 security guards for the library.
Estimated monthly salary = PKR 30,000.
Annual cost = 2 guards × PKR 30,000 × 12 = PKR 720,000
7. Other Costs
7.1. Miscellaneous Equipment
Printers, scanners, and photocopy machines for student use.
Estimated cost for this equipment = PKR 400,000
7.2. Maintenance Costs
Maintenance of computers, furniture, and general upkeep.
Estimated yearly maintenance cost = PKR 500,000
7.3. Utility Costs
Electricity and internet charges for running the facility.
پروجیکٹ کا عنوان: گورنمنٹ فریدیہ گریجویٹ کالج، پاکپتن میں ڈیجیٹل لائبریری کا قیام مقام: گورنمنٹ فریدیہ گریجویٹ کالج، پاکپتن تاریخ: [تاریخ درج کریں]
1. تعارف
گورنمنٹ فریدیہ گریجویٹ کالج، پاکپتن میں ایک جدید ڈیجیٹل لائبریری قائم کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ اس لائبریری میں تقریباً 20,000 کتابیں پہلے سے موجود ہیں اور مزید کتابیں، کمپیوٹرز، فرنیچر، ڈیجیٹل وسائل اور انفراسٹرکچر شامل کیا جائے گا تاکہ طلباء کو اعلیٰ تعلیمی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اس منصوبے کا مقصد ایک لائبریری فراہم کرنا ہے جو طلباء کو نہ صرف جسمانی کتابوں تک بلکہ ڈیجیٹل وسائل تک بھی رسائی دے سکے۔
2. مقاصد
کالج کی لائبریری کو ڈیجیٹل لائبریری میں تبدیل کرنا۔
طلباء اور اساتذہ کو جدید کمپیوٹرز اور ڈیجیٹل وسائل تک رسائی فراہم کرنا۔
لائبریری کے ماحول کو مزید آرام دہ اور تعلیم دوست بنانا۔
جسمانی اور ڈیجیٹل دونوں وسائل کی فراہمی۔
3. منصوبے کا دائرہ کار
لائبریری کے لیے ایک نئی عمارت یا پہلے سے موجود جگہ کی تزئین و آرائش۔
20,000 کتابوں کے لیے شیلف (کتب خانے کے ریک)۔
30 کمپیوٹرز کی فراہمی۔
فرنیچر جیسے کہ مطالعے کے لیے میزیں، کرسیاں، کمپیوٹر ٹیبل اور کرسیاں۔
ڈیجیٹل انفراسٹرکچر جیسے انٹرنیٹ، وائی فائی، اور نیٹ ورکنگ کی سہولیات۔
عملے کی تعیناتی۔
4. لائبریری کے لیے درکار سامان اور لاگت کا تخمینہ
4.1. شیلف (کتب خانے کے ریک)
ہر معیاری شیلف میں تقریباً 200-250 کتابیں رکھی جا سکتی ہیں۔
20,000 کتابیں رکھنے کے لیے تقریباً 80-100 شیلف درکار ہوں گی۔
ایک شیلف کی تخمینی قیمت: 25,000 روپے
شیلف کی کل لاگت = 100 شیلف × 25,000 روپے = 2,500,000 روپے
4.2. عمارت یا جگہ کی تزئین و آرائش
تقریباً 4,000-5,000 مربع فٹ جگہ درکار ہوگی۔
پاکستان میں ایک مربع فٹ تعمیراتی لاگت تقریباً 2,500-3,000 روپے ہے۔
عمارت کی کل لاگت = 5,000 مربع فٹ × 3,000 روپے = 15,000,000 روپے
(اگر موجودہ عمارت کی تزئین و آرائش کی جائے تو لاگت تقریباً 5,000,000 روپے ہو سکتی ہے۔)
4.3. فرنیچر
مطالعہ کی میزیں: تقریباً 10 میزیں درکار ہوں گی، ہر میز پر 6 طلباء بیٹھ سکیں گے۔
ایک مطالعہ میز کی تخمینی قیمت = 40,000 روپے
کل لاگت = 10 میز × 40,000 روپے = 400,000 روپے
مطالعہ کی کرسیاں: 60 کرسیاں درکار ہوں گی۔
ایک کرسی کی تخمینی قیمت = 5,000 روپے
کل لاگت = 60 کرسیاں × 5,000 روپے = 300,000 روپے
کمپیوٹر ٹیبل: 30 ٹیبل درکار ہوں گی، ہر ٹیبل ایک کمپیوٹر کے لیے۔
ایک کمپیوٹر ٹیبل کی قیمت = 15,000 روپے
کل لاگت = 30 ٹیبل × 15,000 روپے = 450,000 روپے
کمپیوٹر کی کرسیاں: 30 کرسیاں درکار ہوں گی۔
ایک کرسی کی قیمت = 6,000 روپے
کل لاگت = 30 کرسیاں × 6,000 روپے = 180,000 روپے
5. ڈیجیٹل انفراسٹرکچر
5.1. کمپیوٹرز
30 کمپیوٹرز خریدے جائیں گے۔
ایک معیاری کمپیوٹر کی قیمت (i5 یا اس سے بہتر، 8GB RAM، وغیرہ) = 100,000 روپے
ایل سی کی سے کیا مراد ہے ، پاکستان میں ایل سی کی کی کیا اہمیت ہے ، ایل سی کی کی رپورٹ کس نے اور کب پیش کی ، کولمبو پلان کیا ہے ، ایل سی کی اور کولمبو پلان کا آپس میں ربط کیا ہے ، پاکستان کی تعلیمی اور معاشی ترقی میں کولمبو پلان کی اہمیت کیا ہے، پاکستان کے کتب خانوں کی ترقی و ترویج میں ایل سی کی کی رپورٹ نے کس قدر اثرات مرتب کیے ، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جاننا ایک لائبریری سائنس کے طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ایل سی کی یا اس کی پیش کردہ رپورٹ کے متعلق جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ایل سی کی اور کولمبو پلان کیا ہے۔
کولمبو پلان کا قیام
کولمبو پلان بنیادی طور پر ایک معاشی اور معاشرتی فلاحی پورگرام ہے اور یہ کولمبو پلان ایشیاء کی ترقی پذیر ملکوں کی مدد کے لیے ترتیب دیا گیا تھا ۔ یہ ایشیاء کی تاریخ کی سب سے پرانی علاقائی انٹر گورنمنٹل تنظیم ہے جو 1950 میں وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد ایشیائی ممالک کے معاشی اور معاشرتی ترقی کے پروگراموں میں مدد فراہم کرنا تھا ۔ کولمبو پلان سی لون کے مقام کولبمو میں اسی کی بنیاد رکھی گئی اور اسکا باقاعدہ افتتاح 1 جولائی 1951 میں آسٹریلیا ، کینڈا ،بھارت، پاکستان، سری لنکا، یو کے اور نیوزی لینڈ کے اشتراک سے وجود میں آیااب اس میں دیگر کئی ممالک مزید شامل ہو گئے ہیں، جن کی تعداد اب 28 تک پہنچ چکی ہے جن میں نان کامن ویلتھ تنثظیم ،آسیان اور سارک بھی شامل ہیں۔
کولمبو پلان بھارت کے سفارت کار کے ایم پاٹیکر نے برطانوی اور آسٹریلیا کے سفیروں کو کثیر جہتی فنڈ ز کے قیام کی تجویز دی تھی اور اسی تجویز کی روشنی میں 1950 میں برطانوی وزیر خارجہ ارنسٹ ہیون نے سلیون ، کولمبو کے مقام پر دولت مشترکہ کے تمام وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی کی نمائندگی کی تھی۔ اور اس اجلاس میں اس پلان کی منظوری چھ سال کے لیے دی گئی تھی ، بعد میں اس پلان کو کئی مرتبہ مزید آگے بڑھایا گیا۔
پاکستان کے ابتدائی مسائل
کولمبو پلان کے متعلق اتنا ہی بتانا مقصود تھا کیونکہ ایل سے کی ہمارا بنیادی موضوع ہے اور ایل سی کی اسی کولمبو پلان کے تحت ہی پاکستان آیا تھا ۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا تو اسے ابتدائی کئی مسائل ورثے میں ملے جن میں ایک اہم مسلئہ یہ بھی کہ ہندو لائبریرین بھارت کی جانب ہجرت کر گئے اور جانے سے قبل بہت سے کتب خانوں کا سامان اور کتب بھی ساتھ لے گئے جو نا لے جاسکے تو بقیہ کو تباہ کر گئے یوں پاکستان میں لائبریریوں کو نہ صرف نقصان پنہچا بلکہ لائبریری کا قحط بھی پیدا ہو گیا اور پاکستان کو تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کے لیے از سر نو کتب خانوں کی بحالی کا چیلنج تھا ۔ چونکہ 1950 میں ایشئائی ملکوں کے لیے کولمبو پلان وجود میں آ چکا تھا اور اس کے ابتدائی ممبر ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا تو حکومت پاکستان کی درخواست پر کولمبو پلان کے پلیٹ فارم سے ایک وفد پاکستان بھیجا گیا جس کا بنیادی مقصد کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی کے لیے ایک جامع پلان حکومت پاکستان کو مرتب کر کے دینا تھا ۔
مسٹر ایل سی کی
مسٹر ایل سی 1903 میں پیدا ہوئے ، اور شعبہ کتب خانہ کو جوائن کیا اور اپنے دور میں وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ جب ان کی وفات ہوئی تو وہ دو عہدوں پر کام کر رہے تھے ۔مسٹر کی دونوں اداروں کی ترقی سے وابستہ تھے۔لیونل کورٹنی سینٹ ایوبن کی، ایم بی ای، بی اے، ایل اے اے، اور ڈپٹی لائبریرین آف دی کامندولت پارلیمانی لائبریری 1947 سے 967، حال ہی میں ایک طویل عرصے کے بعد کیسل ہل میں انتقال کر گئے۔ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ الزبتھ ہیں، اس کے بچوں اور تین پوتے پوتیوں ہیں۔مسٹر کی، اپنے شعبہ کے اندر بہت سے دوستوں کو جانتے ہیں۔ وہ لائبریری کا پیشہ اور باہر کورنے کے طور پر، ان چھوٹے لیکن پرجوش اور پیشہ ور لائبریرین میں سے ایک تھے جو 1937 میں آسٹریلین انسٹی ٹیوٹ آف لائبریرین بنانے کے لیے اکٹھے ہوئےکے پیشرو تھے، آسٹریلیا کی لائبریری ایسوسی ایشن (1949 میں۔ وہ 1940/41 میں انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سکریٹری کے طور پر بہت سرگرم تھے۔ جو اس کی تیسری سالانہ کانفرنس تھی۔ کینبرا میں، اور بعد میں صدر کے طور پر وہ کینبرا برانچ میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
مسٹر کی طویل، متنوع اور ممتاز ہیں۔لائبریرین شپ میں کیریئر صرف صحیح طریقے سے ایمانداری سے سر انجام دیا جائے تو عزت رتبہ مقام سب ملتا ہے ہو سکتا ہے۔ مسٹر کی جب دولت مشترکہ کی پارلیمانی لائبریری کو ماڈل بنارہے تھے اور اس کے ساتھ لائبریری آف کانگریس میں ، سینیٹرز اور ممبران کی معلوماتی ضروریات کو پورا کرنے ک
ے اپنے بنیادی کام کے علاوہ،کے لیے اور قومی لائبریری کی خدمات کو ترقی دینے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔ مسٹر کی نے ایک اہم شراکت کی ان قومی خدمات کے لئے، اگرچہ وہبلکہ پارلیمنٹ میں ان کی براہ راست خدمات کے لئے سب سے بہتر یاد کیا جائے گا جہاں ان کا کیریئر تھا (1925 میں اور 1967 میں ختم ہوا۔ ان کی
خدمت لندن میں نیشنل لائبریری کے ساتھ شروع ہوئی 1944 سے 1948 تک اس کا پہلا نمائندہ ہے۔ انہوں نے امریکہ کی طرز پر پہلی آسٹریلین انفورمیشن لائبریری بھی قائم کی۔انہوں نے آسٹریلیا سے متعلق ریکارڈز کی مائیکرو فلمنگ کی نگرانی کی۔نیشنل لائبریری اور پبلک کے درمیان 1945 کے معاہدے کے تحت پیسفک نیو ساؤتھ ویلز کی لائبریری۔
جب یونیسکو کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا پیرس میں آسٹریلوی وفد کے رکن تھے اور بعد میں آسٹریلیا میں لائبریریوں کے لیے یونیسکو کمیٹی کے رکن بنے۔1948 جب مسٹر کی نیشنل لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین تھے تو ان کے شاندار تجربہ کی روشنی میں ایشیائی ممالک کے ثقافتی امداد کے فعال پروگرام میں نامزد کیا گیا ۔ ہندوستان، انڈونیشیا اور فلپائن کے لائبریرین کے لیے 1952 کا آسٹریا کا سیمینار اسی کا حصہ تھا۔ یہ مسٹر کی کے مشورے سے 1954/5 میں عمل کیا گیا۔ برما، بھارت، نیپال ، ہندوستان، اور پاکستان کی گورنمنٹ اور لائبریری حکام سے مسٹر کی سب سے ملے.
مسٹر ایل سی کی 1954/55 میں کولمبو پلان کے تحت چھ رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کے لیے اپنے قیام کے دوران شب روز محنت سے کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی کے لیے حکومت پاکستان کو ایک جامع رپورٹ1956 میں پیش کی تھی ۔ اس رپورٹ میں نئے کتب خانوں کے قیام کا ایک خوبصور ت جامع پلان تھا جن میں مسٹر ایل سی کی کے مطابق پورے پاکستان مٰں 36 کتب خانے فل فور بنائے جائیں جن میں ایک قومی لائبریری ہو اور دو صوبائی سطح پر لائبریریاں بنائی جائیں ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا اور تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان میں موجود 20 کالجز میں اور ایک خصوصی لائبریری فوری طور پر تیار کی جائے ۔ یہ 1956 میں اس وقت پاکستان کے لیے ایک شاندار رپورٹ تھی اور ایک جامع پلان تھا اگر اس پر اس وقت عمل ہوتا تو پاکستان تعلیمی میدان میں آج دنیا کا مقابلہ کر رہا ہوتا مگر اس پلان کو سرد خانے میں ردی کی ٹوکری میں ڈال کر موت مر دیا گیا۔ بعد میں اسی رپورٹ کی روشنی میں 1959 میں حکومت کو خیال آیا تو ایک نیا پلان ترتیب دیا گیا جس کے مطابق ہر صوبے میں صوبائی سطح پر ایک لائبریری ، ڈویژن ، ضلع، تحصیل اور سب تحصیل سطح پر کتب خانوں کی تجویز دی گئی مگر اس پر کس حد تک عمل ہوا ا س سے آپ سب واقف ہیں ۔
1961 میں مسٹر کی مکمل وقت پر واپس آئےپارلیمنٹ کی خدمت جو ان کی پہلی محبت تھی۔اپنی لائبریرین شپ کیڈٹشپ میں گریجوائیشن میلبورن یونیورسٹی سے مکمل کی۔اورمسٹر کی قانون سازی حوالہ جاتی خدمات کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔انہوں نے یہ کام اس وقت کیا جب پارلمیانی لائبریری سروس صرف کتابیں پڑھنے تک محدود یہ تھی۔1966 میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ لیجسلیٹوریسرچ سروس میں حصہ لیا انکی کی بہترین خدمات میں سے آسٹریلیا میں یہ ان کی نمایاں اور منفرد سروس تھی جس کے وہ بانی تھے۔1967 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کا ایم بی ای کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مسٹر ایل سی کیا آسٹریلیا کی لائبریرین شپ کی تاریخ میں سب سے نمایاں ہیں۔ ان کی وفات سڈنی میں بروز جمعہ 26 نومبر 1982 کو ہوئی۔
Artificial intelligence (AI) can be used in many different ways to improve the services offered by libraries and make the library experience more efficient and convenient for patrons. Some examples of AI applications in libraries include recommendation systems, which use algorithms to suggest similar or related materials based on a patron’s borrowing history and interests; search optimization, which helps improve the accuracy and relevancy of search results by analyzing the content of library resources and patron queries; digital assistants, which provide information about library resources and services to patrons through a library’s website or mobile app; chatbots, which interact with patrons and provide assistance with tasks such as renewing books and finding resources; and collection management, which helps libraries analyze and maintain their collections by identifying high-demand resources and analyzing the content of library materials. Overall, the use of AI in libraries can help improve the efficiency and effectiveness of library services, making it easier for patrons to access the resources they need.
Keywords: Academic libraries, Pakistan, Public Libraries, Special Library, National libraries, Workers, all Types of Libraries in Pakistan
Background of AI in Libraries:
Artificial intelligence (AI) has been used in libraries for several decades, with the first AI applications being developed in the 1980s. Early AI applications in libraries focused on automating tasks such as cataloging and classification, as well as improving the accuracy and relevancy of search results.
As AI technology has developed over the years, libraries have been able to use more advanced AI applications to improve their services. For example, libraries can now use recommendation systems to suggest similar or related materials to patrons based on their borrowing history and interests, and chatbots to provide assistance with tasks such as renewing books and finding resources.
In recent years, the use of AI in libraries has become more widespread, with many libraries adopting AI-powered digital assistants and chatbots to provide information and assistance to patrons. Some libraries have also started using AI to analyze and understand the content of library resources, which can help improve the organization and categorization of library materials.
Overall, the use of AI in libraries has evolved significantly over the years and continues to be an important tool for improving the efficiency and effectiveness of library services.
Artificial Intelligence use in Libraries:
There are many ways in which artificial intelligence (AI) can be used in libraries to improve the services they offer and make the library experience more efficient and convenient for patrons. Some examples of AI applications in libraries include:
Recommendation systems: AI can be used to recommend books, articles, and other resources to patrons based on their past borrowing history and interests. Recommendation systems are a type of artificial intelligence (AI) application that can be used in libraries to recommend books, articles, and other resources to patrons based on their past borrowing history and interests. These systems use algorithms to analyze the resources that a patron has borrowed in the past and use this information to suggest similar or related materials that the patron may be interested in.
For example, if a patron has borrowed several books on a particular topic, the recommendation system might suggest other books on that topic or related topics. The recommendations can be personalized to each patron, so the suggestions made to one patron may be different from those made to another patron based on their unique borrowing history and interests.
Recommendation systems can be accessed through a library’s website or through a mobile app, and they can be a convenient way for patrons to discover new resources that they may not have found on their own. They can also help librarians to promote and highlight underutilized resources in the collection.
Search optimization: AI can help improve the accuracy and relevancy of search results by analyzing and understanding the content of library resources and the queries patrons enter. Search optimization is the process of improving the accuracy and relevancy of search results for a particular query. In the context of libraries, search optimization can be used to help patrons more easily find the resources they are looking for within a library’s collection.
Search optimization is the process of improving the accuracy and relevancy of search results for a particular query. In the context of libraries, search optimization can be used to help patrons more easily find the resources they are looking for within a library’s collection. Artificial intelligence (AI) can be used to help improve search optimization in libraries by analyzing and understanding the content of library resources and the queries that patrons enter. For example, an AI system might be able to recognize synonyms or related terms for a particular search query and use this information to return more relevant results.
AI can also be used to analyze the content of library resources and understand the main topics or themes covered in each resource. This information can be used to improve the accuracy and relevancy of search results by matching the content of resources with the search queries that patrons enter.
Overall, the use of AI in search optimization can help patrons more easily find the resources they need, improving the efficiency and effectiveness of library services.
Artificial intelligence (AI) can be used to help improve search optimization in libraries by analyzing and understanding the content of library resources and the queries that patrons enter. For example, an AI system might be able to recognize synonyms or related terms for a particular search query and use this information to return more relevant results.
AI can also be used to analyze the content of library resources and understand the main topics or themes covered in each resource. This information can be used to improve the accuracy and relevancy of search results by matching the content of resources with the search queries that patrons enter.
Overall, the use of AI in search optimization can help patrons more easily find the resources they need, improving the efficiency and effectiveness of library services.
Digital assistants: Libraries can use AI-powered digital assistants to answer patron questions and provide information about library resources and services. Digital assistants are computer programs that are designed to assist users with tasks and provide information on demand. In the context of libraries, digital assistants can be used to provide information about library resources and services to patrons.
These assistants can be accessed through a library’s website or through a mobile app, and they use artificial intelligence (AI) to understand and respond to patron queries. For example, a patron might ask a digital assistant about the availability of a particular book, and the assistant would be able to provide information on the availability of that book at the library and any other relevant details.
Digital assistants can also be used to answer general questions about the library and its services, such as operating hours, location, and policies. They can provide a convenient way for patrons to access information and assistance without needing to speak to a librarian directly.
Overall, the use of digital assistants in libraries can help improve the efficiency and convenience of library services by making it easier for patrons to access the information they need.
Chatbots: Libraries can use chatbots to interact with patrons and provide assistance with tasks such as renewing books, placing holds, and finding resources. Chatbots are computer programs that are designed to simulate conversation with human users, often through messaging applications, mobile apps, or websites. In the context of libraries, chatbots can be used to interact with patrons and provide assistance with tasks such as renewing books, placing holds, and finding resources.
Chatbots use artificial intelligence (AI) to understand and respond to patron queries and requests. For example, a patron might ask a chatbot about the availability of a particular book, and the chatbot would be able to provide information on the availability of that book at the library and any other relevant details.
Chatbots can also be used to answer general questions about the library and its services, such as operating hours, location, and policies. They can provide a convenient way for patrons to access information and assistance without needing to speak to a librarian directly.
Collection management: AI can be used to analyze library collections and identify resources that are in high demand, helping librarians to make informed decisions about purchasing and stocking new materials. Collection management is the process of organizing and maintaining a library’s collection of resources, including books, articles, and other materials. Artificial intelligence (AI) can be used to help with collection management by analyzing library collections and identifying resources that are in high demand.
For example, an AI system might analyze the borrowing history of a library’s collection and identify resources that are frequently borrowed or requested. This information can be used to inform purchasing and stocking decisions, allowing librarians to prioritize the acquisition of high-demand materials.
AI can also be used to analyze the content of library resources and understand the main topics or themes covered in each resource. This information can be used to improve the organization and categorization of library materials, making it easier for patrons to find the resources they need.
Overall, the use of AI in collection management can help libraries make more informed decisions about their collections and improve the efficiency and effectiveness of their services.
literature review
There has been a significant amount of research and literature on the use of artificial intelligence (AI) in libraries. Some key findings and trends from this literature include:
Improved efficiency and effectiveness: Many studies have found that the use of AI in libraries can help improve the efficiency and effectiveness of library services, by automating tasks, improving the accuracy and relevancy of search results, and providing more personalized recommendations to patrons.
Enhanced patron experience: Several studies have found that the use of AI in libraries can improve the patron experience by making it easier for patrons to access information and resources and providing more convenient and efficient services.
Increased access: The use of AI in libraries can help increase access to library resources and services, particularly for patrons who are unable to visit the library in person. For example, AI-powered chatbots and digital assistants can provide assistance to patrons remotely.
Challenges and limitations: While the use of AI in libraries can bring many benefits, there are also some challenges and limitations to consider. These include the need for sufficient data to support AI applications, the cost of implementing and maintaining AI systems, and the need to develop policies and procedures to govern the use of AI in library services.
The literature suggests that the use of AI in libraries has the potential to significantly improve the efficiency and effectiveness of library services and enhance the patron experience, but there are also important challenges and limitations to consider.
Why we use AI in Libraries ?
There are several reasons why libraries may choose to use artificial intelligence (AI) in their services. Some of the main benefits of using AI in libraries include: Some of the main benefits of using AI in libraries include:
Improved efficiency: AI can help automate tasks and processes in libraries, allowing librarians to focus on more high-level tasks and providing patrons with more efficient service. For example, AI can be used to answer patron questions, renew books, and place holds, freeing up librarians to spend more time on tasks such as collection management and programming.
Enhanced patron experience: AI can help improve the patron experience by making it easier for patrons to access information and resources. For example, recommendation systems and chatbots can help patrons discover new materials and provide assistance with tasks such as finding resources and placing holds.
Improved accuracy: AI can help improve the accuracy of search results and recommendations by analyzing and understanding the content of library resources and patron queries. This can help patrons more easily find the resources they need and discover new materials that they may be interested in.
Increased access: Libraries can use AI to provide services to patrons remotely, such as through chatbots or digital assistants. This can make it easier for patrons to access information and assistance, even if they are unable to visit the library in person.
Enhanced patron experience: AI can help improve the patron experience by making it easier for patrons to access information and resources. For example, recommendation systems and chatbots can help patrons discover new materials and provide assistance with tasks such as finding resources and placing holds.
The use of AI in libraries can help improve the efficiency and effectiveness of library services, making it easier for patrons to access the resources they need. The use of AI in libraries can help improve the efficiency and effectiveness of library services, making it easier for patrons to access the resources they need.
Future of AI in Libraries:
It is likely that artificial intelligence (AI) will continue to play an important role in the future of libraries. As AI technology continues to advance, libraries may be able to use more advanced AI applications to improve their services and make the library experience more convenient and efficient for patrons.
Some potential future developments for AI in libraries might include:
Improved recommendation systems: AI-powered recommendation systems could become more sophisticated, using more data sources and advanced algorithms to provide more accurate and personalized recommendations to patrons.
Enhanced digital assistants: Digital assistants could become more intelligent and capable of answering a wider range of patron queries and providing more detailed information about library resources and services.
Virtual librarians: Libraries could use AI to provide virtual librarian services, such as answering patron questions and providing assistance with tasks such as finding resources and placing holds.
Personalized learning: Libraries could use AI to provide personalized learning experiences to patrons, based on their interests and needs. This could include customized reading lists, learning plans, and other resources.
Overall, the use of AI in libraries is likely to continue to evolve and grow in the future, and it will be an important tool for improving the efficiency and effectiveness of library services.
Requirements for AI in Libraries:
There are several requirements that libraries should consider when implementing artificial intelligence (AI) in their services. Some of the key considerations include:
Data: AI systems often require large amounts of data to be effective, so it is important for libraries to ensure that they have access to sufficient data sources to support their AI applications. This could include data on patron borrowing history, resource usage, and search queries, as well as data on the content of library resources.
Infrastructure: Libraries will need to have the necessary infrastructure in place to support AI applications, such as servers, storage, and networking equipment. They may also need to invest in specialized hardware and software to support AI applications.
Expertise: Libraries will need to have access to experts with the necessary skills and knowledge to implement and maintain AI applications. This could include data scientists, software developers, and AI specialists.
Budget: Implementing AI in libraries can be expensive, so it is important for libraries to have a budget in place to support the development and maintenance of AI applications.
Policies and procedures: Libraries will need to develop policies and procedures to govern the use of AI in their services, including guidelines for data privacy and security, as well as ethical considerations.
Recommendation:
Here are a few additional points to consider when thinking about the need for artificial intelligence (AI) in libraries:
Improved collection management: AI can be used to help libraries analyze and maintain their collections by identifying high-demand resources and analyzing the content of library materials. This can help libraries make more informed decisions about their collections and improve the organization and categorization of library materials.
Enhanced programming and outreach: Libraries can use AI to analyze patron data and understand the needs and interests of their communities. This can help libraries design more effective programming and outreach efforts, and target their resources more effectively.
Improved data analysis: AI can help libraries analyze large amounts of data more efficiently, allowing them to gain insights into patron behavior and usage patterns. This can inform decision-making and help libraries better understand their patrons’ needs and preferences.
Enhanced security: AI can be used to help libraries protect their resources and patrons by detecting and preventing security threats, such as unauthorized access to library systems or materials.
The use of AI in libraries can bring many benefits in terms of improving the efficiency, effectiveness, and security of library services.
Pakistani Libraries and AI
It is likely that AI will play a significant role in Pakistani libraries in the future. Some ways AI may be used in libraries include:
Automation of routine tasks such as cataloging, data entry, and circulation management
Personalization of recommendations for books and other resources
Text and image recognition for digitization of library collections
Use of natural language processing for improved search functionality
Development of virtual reality and augmented reality technologies for enhanced learning experiences
Use of chatbots to provide 24/7 customer service
However, it is important to note that the implementation of AI in Pakistani libraries will also depend on factors such as funding, infrastructure, and government support.
The current status of AI in Pakistani libraries is not satisfactory, but it is likely that AI is not widely used in Pakistani libraries yet. However, with the increasing adoption of technology and the growth of digital resources, it is possible that more libraries in Pakistan may begin to explore the use of AI in the future.
Conclusion:
In conclusion, artificial intelligence (AI) has the potential to significantly improve the services offered by libraries and make the library experience more efficient and convenient for patrons. AI can be used in many different ways in libraries, including recommendation systems, search optimization, digital assistants, chatbots, and collection management.
The use of AI in libraries has already evolved significantly over the years and is likely to continue to grow in the future. Libraries that are interested in implementing AI in their services should consider the requirements and resources necessary to support AI applications, including data, infrastructure, expertise, budget, and policies and procedures.
کھڈیاں کہاں کھو گئیں
زمانے میں مدفن ہیں کتنے زمانے، زمانہ نگل گیا دست کی پوروں کے فن، رگ و ریشے میں خمیر زدہ ہنر، کوکون ریشم میں لپٹ کر دائمی حیات کے خواب بنتا ہے مگر وہی ریشم اسے موت کا پژمژدہ سناتا ہے، کوکون کو کیا خبر وہ ریشم کے پالا گیا ہے نا کہ پروانہ بن کر مٹنے کے لیے، کس کو خبر تھی کہ جولاہوں کا فن و ہنر انکا کاتنا انکا بننا انکا رنگنا سب پاورلومز کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو جاے گا۔مٹی کے کھلونے تراشنے والے کمہار، لنگی،پشمینہ، سلارا،کھیس،پٹو،گلوبند، بوٹھلا، لاچا، اونی چادر بننے والے جولاہے، لکٹری کی چارپائیاں، موڑھے بنانے والے ترکھان،مستری، لوہار معاشرے کو زینت بخشنے والے کسمپرسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان سے کم نرخ میں خرید کر آرٹ اور فیشن کے نام پر بیچنے والے تاجر بن گئے۔پاور لومز، اور نت نئی جدت کے داو پیچ پر مکٹری کے جالے بن کر، ایکسپورٹ، کے نام پر جولاہوں کا نسل در نسل کھڈیوں والا ہنر مرنے لگا ہے، ایک طرف صدیوں پرانا ہنر ہے جو وراثتوں میں منتقل ہوتا رہا ایک ہاتھ سے دوسرت تک فخر سے پہنچتا رہااب آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔
ہماری تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا نوح انسان، موہنجو داڑو، ہٹرپہ، حسن ابدال کے کھنڈرات، ٹھٹھہ، اجودھن،تاریخ طاہری کے مصنف کے بقول صرف ٹھٹھہ میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے کوریوں کے تھے،وادی سندھ میں قدیم عہد سے آج تک ایسی اشیاء تیار ہوتی رہی جو اہمیت کی حامل ہیں، سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا تھا جو کپاس اور ریشم کے دھاگے سے بنتا تھا اسکی تیا ری میں چرخے اور کات کا استعمال ہوااور اس چرخے لو صوفی شعراء نے اپنے کلام میں بھی استعمال کیا، تاریک کی کتب عیا ں کرتی ہیں کہ سندھ پاکستان میں سب سے پہلے کپڑا تیار ہوا پانچ ہزار سال قبل موہنجو داڑا کی تہذہب نے کپاس کی کاشت کی اور اس سے دھاگے بناے، یہ بات پایہ ثبوت ہے جس وقت بشر کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا پاکستان سندھ میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول کہکشاوں کی مانند کھلا کرتے تھے، جب دنیا درختوں کی چھال اور پتے پرو کر کمر سے باندھا کرتے تھے موہنجوداڑو میں ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں مصر میں جب کوئی فرعون مرتا تو اسکو کفن بھی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔میسو پوٹیمیا کے باسیوں نے جو خود کو قدیم تہذیب کے آباء مانے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان سندھ سے کپاس کے بیج دینے کی درخواست کی اور پہلی بار میسو پٹیمیائی باشندوں نے کھردری کھال کی بجائے کپاس کے نرم و گداز پیراہن کو زیب تن کیا۔اسی طرح جب سکندر اعظم اور یونانی پاکستان سندھ میں آے تو کپاس کو دیکھ کر ششدر رہ گئے،اور یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ لفظ کاٹن، کپاس اور کاتنے سے ماخوذ ہے جو قدیم پاکستان سندھ کی ایجاد ہے۔قائداعظم کے والد جناح پونجا بھی کھڈی کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
کھڈیاں ایک دیسی صنعت تھی اور اس دیسی ساخت صنعت نے اپنے عروج کی کئی بہاریں دیکھیں ہیں سستے زمانے کے لوگ دیسی او ر خالص طیبعت کے مالک ہوا کرتے تھے ان کے شوق بھی سندھی چادر کو گلے کا ہار بنا کے رکھنا ہوتا تھا، کھڈیوں سے بنا گلوبند مفلر بھی ان کا زیور تھا پنجابی فلموں میں لاچے، پٹو پہن کر ان کی خوب مارکیٹنگ ہوا کرتی تھی۔ یہ کھڈیاں اپنے عروج سے نہال تھیں تو اب اپنے زوال کی بھی تاریخ رقم کر رہی ہیں اس سے وابسطہ لوگ خوشحال ہوا کرتے تھے، اس کو چلانے کے لیے کسی بڑی بلڈنگ کی ضرورت قطعی نہیں ہوتی تھی، نہ سینکڑوں کاری گاروں کی فوج بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی تھی بس زمیں میں اڑھائی فٹ کا گڑھا کھودا ، ایک چھپر ڈالا، لکڑی کی ایک میخ زمیں میں گاڑی، دھاگا اس کے ساتھ باندھا اور کام شروع کر دیا
پاکپتن میں جولاہے اپنی کھڈیوں کی وجہ سے مشہور تھے،کھیس تو اب کنارہ کر گئے،اون کی بنی چادریں ااورانکا کھردری بنتر کا لمس جداگانا ہوتا تھا، ٹھٹھرتی سردی میں کھیس کی حدت کیا کمال تھی،پاکپتن مزاروں اورعقیدتوں کا شہر ہے اس میں کہانیا ں بستی ہیں، کھڈیاں بننے والے تاریخ کی ڈور چرخی پر لپیٹ کر تاریک رقم کرتے تھے مگر ہر صبح کھڈیوں کی تعداد گھٹا رہی ہے گھروں سے چرخے ختم ہو رہے ہیں تو گلیوں میں دھاگے رنگتے جولاہے کوئی اور ہی کام کی فکر میں نکل پڑے ہیں، پاکپتن میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے محلے گلیوں میں لگی کھڈیاں اور اس پر مرد و خواتین بیٹھی رچھ میں دھاگے ڈال کر نال میں ریلیں لگا نے میں محو ہوتی تھیں، مرد اپنے ہاتھوں سے رتھ کو کھینچ کر کپڑے کو داب دے رہا ہوتا تھا تو عورتیں کچن لے کر دھاگوں سے بل نکال رہی ہوتی تھیں مرد پیرڈی سے لنگی میں رنگ بھر رہا ہوتا تھا تو عورت طر پر بنے کپڑے کو لپیٹ رہی ہوتی تھی،مرد تھکتا تو عورت آدھلکھ کو دیکھ کر حوصلہ بڑھانے میں لگی ہوتی،فڑتا، لپنک، پھیرنی، کلا، کلارنا، رسن کھرک جولاہوں کے دلکش اوزار ہوا کرتے تھے، گٹیا ویلن پر بیٹھے جولاہیاپنے فن کی آبیاری کرتے دکھائی دیتے تھے۔ پاکپتن میں کھڈیاں شہرت کی حامل تھیں، محلہ حسن پورہ، کرم پورہ گڑھ تصور کیے جاتے تھے گرد و نواح میں یہا ں سے ایکسپورٹ کی جاتی تھیں
محلہ حسن پورہ میں کھڈیوں سے منسوب محمدرمضان جس کی عمر اور بینائی کھڈیوں پر کپڑا بنتے گئی اس سے جب پوچھا تو سوچوں کے بحر سو اس ک پاس اپنی بے بسی بیان کرنے کو الفاظ نہیں تھے، ساری حیات دوسروں کو ان کی منشاء کے مطابق دلکش و دلنشین لبادے اوڑھنے والا اب ایک وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہے بھیک مانگ کر زیست کی بچی ساعتیں گزار رہا ہے، محلہ حسن پورہ میں ہی ایک اور کھڈی سے منسوب محمد حسین وہ بھی اب بڑھاپے کی لاٹھی ہانکتا ہے اس کا بیٹا بشیر کھڈیوں کا پیشہ چھوڑ کر اب پاپٹر بیچتا ہے کیوں کے دھگے کی قلت اور روئی کے مہنگے ہونے کی بنا پر اس سے انکا گزر بسر ہونا نا ممکن ہے اس لیے اس نے یہ کام دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا، ان کے بتانے پر محمد نذیر چک کالے خان کے پاس گئے تو وہ آج بھی اپنے خاندانی پیشے پر بضد ہے کہتا ہے مر تو جاوں گا پر یہ پیشہ نہیں چھوڑ سکتا دو دن میں بمشکل تین گز لمبی اور پونے دوگز کی ایک چادر تیا ر ہوتی ہے جس پر پانچ سے چھ سو خرچہ آجاتا ہے مگر یہ روز نا بنتی ہے اور نا بکتی ہے کئی کئی دن انتظار کے بعد جا کر آٹھ نو سو کی بکتی ہے جو کہ نا کافی ہے۔محلہ کرم پورہ میں مقیم عبدالغفور سے ملے تو اس نے بتایا وہ بچپن سے اسی کام سے منسوب ہے باپ دادا بھی اسی کام سے پیوستہ تھے میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں بچے بیوی مل کے کھڈی پے کام کرتے ہیں جب ان سے پوچھا کہ اب اس شہر میں کتنے افراد اس پیشے سے جڑے ہیں تو اعداد و شمار سے دل بسمل سا ہو گیا کہ سینکڑوں لوگوں سے اب یہ فقظ پندرہ بیس لوگوں تک محدود ہو گیا ہے،اسی طرح ہوتہ روڈ پر ملک پور کے قریب روڈ پر کھڈی لگائے ایک اور عبدالقادرسارا دن کھڈی پر کام کرتا دکھائی دیتا ہے اس کی آنکھوں میں کتنے خواب ہیں مگر سب دفن کرکے بیٹھا اس فن کو زندہ کرنے کی سعی میں مگن، لوگ گزرتے ہوے اس کھڈی پر بنی دلکش و دیدہ زیب، آنکھو ں کو چندھیا دینے والی ورائٹی کو دیکھ کر ایک دم کو رکتے ہیں سیلفی بنواتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس صنعت سے منسوب سب کی بس ایک ہی حکومت سے گزارش تھی ان کو دھاگا مفت نا سہی سستے داموں فروخت کیا جاے، اور حکومت ہم سے خود خریدے، اس آخری سانسیں لیتی دیسی صنعت کو مرنے سے بچایا جاے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی راہ ہو لیتے ہیں پتھر کی مورت سے جبین کو لہو سے رنگنے کا کیا فائدہ، کبھی ایک انجانی امید کی ڈور حالات اور امید کی روح کے تانے بانے میں اریپ ڈال دیتی ہے دل چاہتا ہے اب پر سکوں دکھائی دیا جاے مگر وراثتی فن اور دستی صنعت کی اس بوسیدہ عمارت کی دیواروں کو خود گرا کر اس زندان سے نکل کر انگلیاں کاٹنے کو جی نہیں کرتا،چار سو کھڈیوں اور ریشم و اون میں جکڑی روح اس کے بنا شانت کیسے رہ سکتی ہے وہ کیسے چھوڑ دیں چرخہ کاتنا، کھڈی پر بننا، رنگنا وہ اپنے ہنر سے دستبردار ہونے کے خواہاں نہیں ہوں بھی تو کیوں کہ انہی کے فن نے تو تاریخ کو تحریک دی، ننگ بند ن کو لبادے دیے، گئے وقتوں میں دست کی پوریں کٹوا لیں مگر اصلاف کے فن کو نابیچا اور نا چھوڑا