اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں لائبریری کیوں ضروری ہے
Umar Daraz Janjua
اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں لائبریری کیوں ضروری ہے Read More »
Umar Daraz Janjua
اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں لائبریری کیوں ضروری ہے Read More »
انعام الرحمن
لائبریری اور ذہنی سوچ
لائبریری اور کتب کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں انسان اپنے مطالعے اپنی سوچ کی تخلیق اور نشوونما کرتا ہے۔ جہاں طالب علم اپنے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ جہاں پر نظریات پیدا ہوتی ہیں۔
لائبریری ممالک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماضی کے یونان سے لیکر آج کا مغرب کی ترقی کے پیچھے لائبریری کا ہی ہاتھ ہے۔ اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد وہاں کی لائبریری اور کتب مغرب منتقل کئے گئے۔ اندلس کے مسلمان نادر کتب کو اپنی شان سمجھتے تھے۔ جہاں مغرب کی ترقی میں لائبریری سے محبت کا اہم کردار ہیں وہی پر مسلمانوں کے زوال میں لائبریری سے دوری ایک اہم وجہ ہیں۔
اگر امریکہ کی ترقی اور دنیا پر حکمرانی پر غور کیا جائے۔ تو انکے ساتھ لائبریری آف کانگریس کا ذکر لازمی ملے گا کیونکہ لائبریری آف کانگریس نے امریکی قوم کی سوچ ہی بدل دی کیونکہ لائبریری قوموں کی ذہنی نشوونما کرتی ہیں۔ لائبریری کا اہم مقصد منفی سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنا ہیں۔ جیسا کہ منفی سوچ و نظریات مسلم دنیا اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں پروان چڑھ چکی ہیں اور معاشرہ تنگ نظری اور عدم برداشت تک پہنچ چکا ہیں۔ اسکی وجہ کتب اور لائبریری سے دوری ہے۔ جب لوگوں کے پاس بات کرنے کی دلیل ہی نہیں ہوگی تب وہ گالی اور گولی کی زبان میں ہی بات کریں گے۔
چین اگر آج دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری بنا چکا ہیں تو اس کے پیچھے بھی کوئی اہم مقصد ہوگا۔ چین اس بات کا تعین کرچکا ہیں کہ جہاں اقتصادی پالیسی ضروری ہے وہی پر قوم کو تعلیم و مطالعے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم صرف قوم کو اقتصادی طور پر مضبوط کر بھی دے تو ایسے دنیا کی دوسری قوموں سے مقابلے کیلئے علم کی ضرورت پڑے گی۔ آج دنیا بھر سے لوگ علم کیلئے چین کا ہی رخ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ ہی ہے کہ چین نے علم و کتب کو اہمیت دی۔
آج پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام وہ ممالک جو اخلاقی و معاشی پستی کا شکار ہے۔ معاشرہ عدم برداشت کی طرف جارہا ہیں۔ اسکی اہم وجہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کی لائبریری سے دوری ہیں۔ ہم کتب اور لائبریری کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جو لائبریری کا حق ہے۔ ہمارے قوم کے نوجوانوں کی سوچ اور ذہن کی نشوونما نوکر و نوکری کی سوچ سے زیادہ نہیں کی جارہی۔ ہماری لائبریری صرف اور صرف مزدور پیدا کررہی ہیں۔ ہمیں یہاں کوئی دانشور، کوئی سائنسدان، کوئی شاعر و ادیب اور سب سے بڑھ کر کوئی عظیم رہنما کیوں نہیں مل رہا؟ کیونکہ ہماری لائبریری اس معیار کی نہیں ہیں۔ جہاں ایسے عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ جو دنیا و قوموں کی تاریخ بدل دیتے ہیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل اور قوم کو لائبریری کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔ اپنے معاشرے میں کتب کا شوق پیدا کرنا ہوگا۔ یہ ایسی سوچ ہے، جو معاشرہ کو بدل سکتی ہیں۔ یہ کام معاشرے کے ہر پڑھے لکھے انسان کا ہے۔ خاص کر لائبریری سے جڑے ہر لائبریری پروفیشنلز کا ہے کیونکہ ان سے زیادہ لائبریری کی اہمیت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کیا کسی ایک بھی لائبریری پروفیشنل نے انفرادی طور پر معاشرے میں چھوٹی چھوٹی پرائیوٹ پبلک لائبریری پر کام کیا ہے۔ کیا ایک کمرے کی چھوٹی سی لائبریری اپنے محلے میں قائم کر رکھی ہیں۔ کیا محلے میں لائبریری کی اہمیت پر کھبی بات کی ہیں۔ جب ہم لائبریری سے پیار کرنے والے ایسے ہوں گے۔ تو باقی لوگ کیسے لائبریری کو اہمیت دیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو انفرادی انسان نے ہی لائبریری سے متعلق سوچ ہی بدل دی۔
ہمیں اپنے ملک میں لائبریری سے متعلق سوچ بدلنی پڑے گی۔ ایسوسی ایشن اور تنظیم صرف اپنے حقوق کیلئے نہیں بلکہ لائبریری کے تحفظ اور بحالی کیلئے بھی ہونی چاہیے۔ ہر یونین کونسل اور محلے میں ایک چھوٹی سی لائبریری کی بنیاد ضرور ہونی چاہیے۔ آج کی ایک چھوٹی سی لائبریری کل بہت بڑی سوچ کو پیدا کرے گی۔
انعام الرحمن
لائبریرین
اردو سائنس بورڈ
لاہور
[email protected]
لائبریری اور ذہنی سوچ Read More »
Ch. Muhammad Akram
کتب خانوں کا معاشروں میں کرداراور ہمارا رویہ
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو کتا ب ماضی کی جبیں پر یہ الفاظ ثبت ہیں کے قومیں وہی بام عروج کو پہنچتی ہیں جو اپنے اسلاف کی تاریخ کو اپنی جبیں کا جھومر بنالیتی ہیں اور جو قوم اجداد سے آنکھیں پھیر لے اسکی بے بسی نوشتہ دیوار ہوا کرتی ہے۔ بزم ہستی شاہد ہے کہ عہد مسلم میں جتنی فوقیت کتب خانوں کو ملی شاید ہی کسی قوم نے دی ہے اور کہتے ہیں،ترقی کا راز تعلیم میں ہے تو تعلیم میں ترقی کتب خانوں سے منسوب ہیں اسی راز کو مسلمانوں نے پا لیا تو بیت الحکمت اور درالحکمت جیسے کتب خانے پورے عالم میں اپنی مثال آپ تھے۔سقوط بغداد میں بیت الحکمت کو ہلاکو خان کی سپہ تا تاریوں نے جب اس کتب خانے کو دریا برد کیا تو دریاے دجلہ کاپانی سات دن تک سیاہ رہا او ر تاتاریوں نے کتابوں سے پل بنا کر دریا عبور کیا، صدیوں پر محیط علم و ادب کے خزانے کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا گیا۔
ملک تعلیم سے ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہیں تو تعلیم کتب خانوں سے عروج پاتی ہے، مغرب کی ترقی اور فلک بوس عروج کا قصہ معشیت اور تعلم سے سرشار ہے مغرب کی ہیت کو فقط ٹیکنالوجی کے پیمانے پر پرکھنے والوں نے ان کے کتب خانوں کے عروج سے پہلو تہی کی۔ سات سو قبل مسیح آشوربانی پال کے کتب خانے سے کتب خانوں کا یہ سفر پرگامم کتب خانے سے ہوتا ہوا سکندریہ اور آج ۲۰۱۷ میں یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری، لائبریری اٖآف کانگریس کی شکل میں موجود ہے۔کتب خانوں نے عروج و زوال کے ان گنت نقوش قرطاس ہستی کی کتاب میں چھوڑے، مٹی کی تختیوں سے چلنے والی کتاب کی تحریک ویلیم، پارچمنٹ، پپائرس سے ہوتی ہوئی ۱۰۵ عیسوی میں چائنہ میں پہنچی اور پھر اڑن کھٹولے کی اڑان پکڑتی ہوئی ڈیجیٹل، انٹرنیٹ، آن لائن، پی ڈی ایف تک پہنچی اور ابھی یہ سفر باقی ہے۔
شومی قسمت کہ ارض پاک وہ خطہ ہے جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی خاک پاے مسلم کی ٹھوکریں کھارہی ہیں تو کبھی ریڑھی پر ردی والا اسے پانچ روپیے کلو میں خرید رہا ہوتا ہے، اس کے برعکس جوتیا ں شیشوں کے دلکش اور برقی قمقوں میں چمکتی بے حس آدم کی ذہنیت کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں ہم تین ہزار کے جوتی خرید کر شیخی بکھیرنے میں ثانی نہیں رکھتے، جبکہ تین سو کی کتاب خریدنا ہماری جان و جیب پر گراں گزرتی ہے،موبائل پکڑنا عزت اور کتاب پکڑنا عار لگتا ہے۔بازار میں جانا پسندیدگی کی علامت مگر کتب خانے میں جانا وقت کا ضیاء لگتا ہے، فیس بک پر گھنٹوں محو تو ہو سکتے ہیں مگر کتاب کا ایک صفحہ پڑھنے سے آنکھیں دکھیں تو پھر اس قوم کے افراد کے اس روپے پر نوحہ اور رویا ہی جا سکتا ہے۔
پاکپتن فقط ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک تاریخ کا رخشندہ باب ہے، شہر فرید بابا فرید کے نام سے عالم میں شہرت کا حامل شہر مگر کتب خانوں کے لحاظ سے ابتر حالت کا خماز ہے، اس کو ضلع بنے بھی بیس سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، آبادی ہزاروں سے لاکھوں کے ہندسوں کی حدوں سے نکل گئی مگر آج بھی یہ شہر کتب خانوں کی قلت کا شدید شکار ہے اس میں چند کتب خانوں کا احوال اور ان کی حالت زار اس معاشرے کی کتاب سے عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے، بابا فرید میونسپل لائبریری 10 جنوری 1954 کوموجودہ ریلوے روڈ پر جود میں آئی، اڑتیس سال یہ کتب خانہ وقت کی رفتار کے ساتھ تھکتا ہارتا لڑکھڑاتا بھاگنے کی سعی کرتا رہا حالات کے تھپیڑے کھاتا رہا 1989میں لائبریری کو بلدیہ ھال میں منتقل کر دیا گیا اس کتب خانے کی کتب پر وقت کی گر د پڑتی رہی اور صفحات پھٹتے رہے، خستہ حالت سے کتب کا دم گھٹتا رہا، 1981 سے 2000 تک یہ کتب خانہ اپنی زبوں حالی اور ویرانی کے رونے روتا رہا، آخرش مسٹر اعجاز حسین موجودہ لائبریری انچارج کی پہیم سعی سے ایک نئی عمارت نصیب ہوئی، جسکا سنگ بنیاد ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ ٹیم کے انچارج لیفٹینٹ کرنل فرحان اخترنے رکھا، شہر فرید کے فہم رکھنے والے افراد نے اینٹیں، سیمنٹ، نقدی، کمپیوٹر، کرسیاں، میزیں دے کر اس کی تکمیل میں میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح 31فروری 2001کو برگیڈیئر احمد چھٹہ کمانڈر ۱132وکاڑہ نے کیا اور اس کتب خانے کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے زیر انتظام کر دیا گیا۔
اس کتب خانے کا کل رقبہ17مرلے ہے جس میں 10 مرلے پر عمارت مشتمل ہے اکیسویں صدی میں یہ رقبہ لائبریری کے نام پر مذاق کے مترادف ہے اور کسی بھی کتب خانے کے لیے نا کافی ہے اس کتب خانے کے دو کمرے ہیں، ایک ریڈنگ ھال، سٹور، ریفرنس سیکشن موجود ہے، اقبالیات، سیرت النبی ﷺ، شاعری، سفر نامے، تاریخ، ناول، افسانوں کے بہترین نمونوں کو دلآویز انداز میں لائبریری میں رکھا گیا ہے، کتب خانے میں موجود کتب کی تعداد ۳۵۰۰۰کے لگ بھگ ہے روزانہ تیرہ اخبارات اردو انگریزی زبانوں میں اس کی زینت بنتے ہیں، پانچ کمپیوٹر کو انٹرنیٹ سے منسلک کر کے کتب خانے کو جدید یت کی راہ پر گامزن کرنے کی سعی کی جا رہی ہے،پانچ لوگوں کا سٹاف روزانہ کتب خانوں میں آنے والوں کو سروس فراہم کرنے میں سرکرداں ہے، ۶۰ کرسیوں میں بیشتر قاری کی منتظر رہتی ہیں، ۶۵ سال سے زائد عرصہ میں یہ کتب خانہ فقط دو سو ممبر ہی بنا سکا جو ہمارے معاشرے کی کتاب اور لائبریری سے بے اعتنائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پتھر کے زمانوں میں کتب کو صندوقوں اور زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھااور لوہے کی بڑی بڑ ی الماریوں میں حفاظت کے نام پر قفل لگاکر مقید کر لیا گیا۔وسائل کی کمی، سٹاف کی قلت، عوام کی عدم دلچسپی، حکومت کا عدم توجہ کا رویہ، فنڈ کی فراہمی میسر نا ہونا یہ سب کتب خانوں کی ویرانی کا سبب ہیں۔
یونیورسٹی آف لاہور پاکپتن کیمپس کی لائبریرین بشری ناز نے بتایا کہ لائبریری میں اس وقت چھوٹا سا کتب خانہ قائم ہے جو سٹوڈنٹ کی ضرورت کے لیے نا کافی تاہم اس کے لیے نئی لائبریری کی عمارت زیر تعمیر ہے ابھی ان کی کل کتب3500 کے لگ بھگ ہیں، اس کتب خانے کو لمز سوفٹ ویئیر سے منسلک کر کے کام چلایا جا رہا ہے۔
پاکپتن میں ایک اور نایاب کتب خانہ،بابا فرید لائبریری بھی ہے جو دربار کے ساتھ مسجد کے نیچے موجود ہے جو محکمہ اوقاف کے تحت ہے، اسکے موجودہ انچارج رانا تنویرنے بتایاکہ پنجاب میں کل اوقاف کے تین کتب خانے ہیں دو لاہور اور ایک پاکپتن میں ہے اس میں بابا فرید پر نادر کتب کا مجموعہ 2580جو زائرین اور عام عوام کے لیے مختصص ہے، بابا فرید پر تحقیق کرنے والے لوگ اس سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔حاجی اللہ دتہ انگلش ٹیچر بصیر پور آجکل اس کتب خانے سے اپنی پی ایچ ڈی کے لیے بابا فرید شناسی کی روایت کا تنقیدی جائزہ پر ریسرچ کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ گرلز کالج کتب خانے کی انچارج آصفہ خورشید سیال صاحبہ کے بقول ان کے کتب خانے میں کل10397کتب کا ذخیرہ موجود ہے جو 21000 طلبہ کی ضروریات کے کو پورا کر رہا ہے تاہم لائبریرین نا ہونے سے یہ کتب خانہ موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
گورنمنٹ فریدیہ پوسٹ گریجوائیٹ کالج کی کتب کا ذخیرہ ہ1400ہے ضلع کے تما م تعلیمی کتب خانوں سے زیادہ ہے، یہا ں پر بھی لائبریرین نا ہونے سے موجودہ دور کے کتب خانوں سے ہم آہنگ نہیں، پرنسپل رانا طارق عزیز ناصر کی کتب دوست پالیسی سے ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری کام کر رہی ہے اور اس کتب خانے کو پروفیسر بخت یا ر ظفر شعبہ کتب خانہ جات نے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کوہا سوفٹ ویئر پر آٹو میٹیڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔
عارف والامیں پاکپتن کی تاریخ کے سب سے پرانے کتب خانے گوررنمنٹ علامہ اقبال پبلک لائبریری کو دیکھا تو اسکی ابتر حالت سکوت ماتم کر رہا تھا۔ مسٹر شکیل قمر موجودہ انچارج کے مطابق اس کتب خانے کا باقاعدہ آغاز20 فروری1938کو سردار ہزارہ سنگھ نے اس کا افتتاح کیا تھا، جاہن برینڈر اس کے پہلے لائبریرین تھے،اس دور کی 3500نایاب کتب کوعملہ کی عدم توجہی سے دیمک چاٹ گئی اب اس کی 2000 موجودہ کتب کا ذخیرہ ہے اسی طرح عارف والا میں گوشہ ادب لائبریری تھی جو آج بلکل ختم ہو چکی ہے
گورنمنٹ پوسٹ گریجوائیٹ کالج عارف والا کے کتب خانے میں بھی لائبریرین موجود نہیں ایک پروفیسر کو اسکا چارج دیا گیا ہے اس کتب خانے کا کل ذخیرہ کتب 11000کے قریب ہے جو 1800 سے زائد طالبعلموں کو فوری اور جدید سہولیات دینے سے قاصر ہے۔
پاکپتن کے تمام سرکاری کتب خانے اکیسویں صدی کے، ڈیجیٹل لائبریری، وریچوئیل لائبریری، ملین بکس لائبریری،گوگل لائبریری، سوشل میڈیا لائبریری، الیکڑونکس لائبریری اور ایمازون کی شکل میں کتب خانے موجود ہیں، جہاں آن لائن، ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری لاکھوں کتب اور آرٹیکل مہیا کر رہی ہے وہاں یہ کتب خانہ اپنی ویب سائٹ سے بھی قاصر ہے، جہا ں دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے وہاں پاکپتن کی تمام لائبریریاں ریسورس شئیر کے نام سے بھی آشنا نہیں۔جہاں دنیا ہفتہ بھر کتب خانے چوبیس گھنٹے کھلے ہوتے ہیں یہاں دن کے اجالے میں تالے پڑے ہوتے ہیں، ہمیں ضرورت ہے سوچ بدلنے کی ہمیں ضرورت ہے رویے بدلنے کی، کتب خانوں میں انقلاب برپا کریں گے تو قوم انقلابی بنے گی اور ملک میں مکتب،معلم،طالبعلم اور کتب خانے آباد ہوں گے۔جس دن یہ قوم اس سے راز سے آشنا ہو گئی کہ ترقی کا راز کتب میں ہے اس دن یہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گا اور اسکی عوام کتب خانوں کی طرف رخ کرے گی، کتب خانے آباد ہوں گے۔
کتب خانوں کا معاشروں میں کرداراور ہمارا رویہ (محمد اکرم) Read More »
پروفیسر احمد نعیم چشتی
ایک کتابی کیڑے دوست نے میری کاہلی اور سستی کو کانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور مشورہ دیا کہ اگر ضخیم کتابیں پڑھنا مشکل ہے تو چھوٹی کہانیاں ہی پڑھ لیا کرو۔ اس نے زور دیا کہ میں گلے کا ہار، آخری پتا، میگی کا تحفہ، رسی کا ٹکڑا اور ایک گھنٹے کی کہانی جیسے چند افسانے ضرور پڑھوں۔
دوست نے بتایا تھا کہ Story of an hour کا شمار دنیا کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جو ہماری زنگ آلود سوچ پہ چوٹ کرتی ہیں اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ کم بخت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ میں نے عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی آج بھی دل و دماغ اس کے سحر میں جکڑا ہے۔ دو اڑھائی صفحوں کی اس چھوٹی سی کہانی کے تقریبا ایک ہزار لفظوں میں ہزارہا صدیوں کے دکھ عیاں ہیں اور مجبوریوں کی لمبی داستاں کو سمیٹا گیا ہے۔
یہ مسز میلرڈ کی کہانی ہے جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ خبر ہے کہ اس کا خاوند ریل گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ مسز میلرڈ کی بہن اور رچرڈ (خاوند کا دوست) اسے افسوسناک خبر سنانے میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے فقروں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ خاوند کی موت کا سنتے ہی مسز میلرڈ رونا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دوسری منزل پہ واقع کمرے میں اکیلی چلی جاتی ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کرکھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے۔ باہر فطرت کے خوبصورت نظارے اور خوشنما زندگی نظر آتی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک غیر متوقع اور عجیب خوشی محسوس کرتی ہے۔ خدا سے اپنی لمبی زندگی پانے کی دعا مانگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند کی موت کا افسوس بھی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ آخری رسومات پہ پھوٹ پھوٹ کے روۓ گی۔ مسز میلرڈ کی بہن اوپر آتی ہے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہتی ہے۔ مسز میلرڈ بہن کے ساتھ نیچے چلی جاتی ہے۔
گھر کا مرکزی دروازہ کھلتا ہے اور اس کا خاوند مسٹر میلرڈ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاوند کر زندہ دیکھ کر مسز میلرڈ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اچانک خوشی موت کا سبب بنی۔
امریکی مصنفہ کیٹ چاپن (Kate Chopin) اس کہانی کی خالق ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی 1994 میں لکھی جو پہلی بار Dream of an Hour کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ کیٹ چاپن نے اپنے ناول The Awakening اور باقی کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی عورتوں کی مجبوریوں، استحصال اور حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈرن فیمنزم کی جڑیں Story of an Hour کے لفظوں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔
خاوند کی موت کے بعد مسز میلرڈ آزادی اور من چاہی زندگی کے سپنے کو پورا ہوتی دیکھتی ہے۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی اس کے آزاد و روشن مستقبل اور خوبصورت زندگی کی علامت ہے۔ کھڑکی سے نظر آنے والے ہوا کے دوش گھومتے روئی کے گالوں سے بادل، درختوں کی چوٹیاں جن سے بہار کے رنگ سبز پتوں کی صورت پھوٹے ہیں، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا گہرا نیلا آسمان، دور سے آتی کسی گانے کی مدھر لے، گلی سے اٹھتی زندگی سے بھرپور آوازیں، ہوا میں ملی بارش کی مہک اور موسیقی سے بھری چڑیوں کی چہچہاہٹ سب اس دل لبھانے والے جیون کا استعارہ ہیں جو خاوند کے ہوتے اسے نصیب نہ ہوا۔
یہ ہمارے معاشرے کی المناک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے مرد نے یہ کھڑکی بند کر رکھی ہے۔ خاوند کے جیتے جی بیوی ایسی زندگی نہیں جی سکتی۔ خاوند کی موت پہ مسز میلرڈ بار بار سرگوشی کرتی ہے۔ ‘ آزاد، جسم اور روح آزاد ہو گئے‘
کیٹ چاپن کے نزدیک ایک عورت کے لیے خاوند سے چھٹکارا پانا اہم نہیں بلکہ ایسی زندگی کی اہمیت ہے جس کی وہ خود مالک ہو۔ کیٹ چاپن مسز میلرڈ کی خوشی کی وجہ لکھتی ہیں۔
آنے والے برسوں میں وہ کسی دوسرے کے لیے نہیں جیے گی، اپنی زندگی اپنے لیے جیۓ گی۔ اس کی مرضی کو کسی دوسرے شخص کی مرضی توڑ مروڑ نہیں سکے گی۔‘
انیسویں صدی کے آخر میں جب یہ کہانی لکھی گئی تو امریکی معاشرے میں اس کو خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ کہانی صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے وقت سے پہلے لکھی گئی۔ ہمارے ملک میں شاید ایسے خیالات کو آج بھی بہت سارے لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔
میلرڈ خاوند کے بعد ایک نئی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے۔ یہ خواب اتنا دلکش ہے کہ وہ دعا مانگتی ہے کہ وہ لمبی زندگی جیے اور آزادی کے احساس کا لطف زیادہ عرصہ اٹھا سکے۔ ایسا خواب اور ایسی دعا پہلی بار اس کی زندگی میں آئے تھے۔ ہم کہانی میں دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کا یہ خواب تعبیر کی منزل نہیں پاتا نہ ہی اس کی دعا شرف قبولیت حاصل کر پاتی ہے۔ بلکہ ایک گھنٹے کے اندر ہی سہانی زندگی جینے کا خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق مسز میلرڈ کی موت خاوند کو زندہ دیکھنے کی اچانک خوشی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن کہانی پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت خاوند کو زندہ دیکھنے کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاوند ہی بیوی کی خوشی کی زندگی جینے میں رکاوٹ ہے۔
ڈاکٹرز کا موت کی غلط اور متضاد وجہ کی تشخیص معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے کہ ہم عورت سے متعلقہ معاملات کو غلط رنگ دیتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ شاید خواتین کے دکھوں کے پیچھے کارفرما اصل وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مسز میلرڈ کی کہانی میں کیٹ چاپن کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی پڑتا ہے۔ کیٹ چاپن کے خاوند کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کی ماں اور گھریلو عورت کو روزی روٹی کمانے کے لیے ایک آرٹسٹ اور قلم کار کا رول اپنانا پڑا تھا۔ کیٹ چاپن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ کامیاب لکھاری بن گئیں۔ یہ کہانی بھی عورت کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا پیغام دیتی ہے۔
اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو دیکھنے میں خوش ذائقہ نظر آتا ہے اور چکھنے پہ کڑوا ثابت ہوتا ہے۔ جو بھی کھاۓ، وہ پچھتاۓ۔ شادی شدہ عورت کے پاؤں میں پڑی سخت مجبوریوں، بے شمار ذمہ داریوں اور بے جا پابندیوں کی زنجیریں جان لیوا ہیں۔ شادی کے بعد مرد باہر کام کرتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ لہذا گھر سے باہر کے تمام مواقع عورت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ عورت نے آگے بڑھنے، دنیا میں اپنا مقام بنانے، روشن مستقبل کے حصول اور زندگی کو انجواۓ کرنے کے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چار دیواری ہی میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ مسز میلرڈ بیوی کے ایسے ہی پراسرار رول میں پھنسی نظر آتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے کڑے مطالبات ہیں جن کے پاٹوں میں عورت پسی چلی جاتی ہے۔
Story of an hour میں رونا دھونا کافی ملتا ہے۔ کہانی کی ہیرؤئن خاوند کی موت پہ روتی ہے۔ جب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تب بھی ڈسکارے بھرتی رہتی ہے۔ پھر جب اپنے خیالوں میں خاوند کے جنازے میں شریک ہے پھر بھی رونے کا ذکر ملتا ہے۔ خیالوں ہی میں خاوند کو دفنانے کے بعد رونے کا ذکر نہیں آتا۔ اس کا رونا دھونا تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک خاوند اس دنیا میں موجود ہے۔
مسز میلرڈ دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور یہ عارضہ بھی خاوند کی عطا معلوم ہوتا ہے۔ اور کہانی کے آخر پر خاوند ہی جان لیوا صدمے کی وجہ بنتا ہے۔ یہی عارضہ اس کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے ہی ناسور جو عورت کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، وہ معاشرے کی عطا ہیں۔
یہ کہانی امریکی مصنف Charlotte Perkins Gilman کی کہانی The Yellow Wallpaper سے بھی ملتی جلتی نظر آتی ہے جس میں ایک عورت اس قید اور پابندیوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے شوہر نے اس پہ مسلط کی ہیں۔
یہ کہانی ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی پکار ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ موت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ موت سے پہلے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ خواتین کے لیے اس کہانی میں نصیحت ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ کیٹ چاپن اپنے ناول The Awakening میں لکھتی ہیں۔
“مجھے ہمیشہ ان خواتین پہ افسوس ہوتا ہے جو چلنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سارے زندگی کے چھوٹے چھوٹے نایاب نظاروں سے محروم رہتی ہیں۔”
کیٹ چاپن کی اس چھوٹی سی کہانی میں کتنی بڑی بڑی باتیں کی گئی ہیں۔
ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »
پروفیسر احمد نعیم چشتی
فیس بک پہ کتاب کا سر ورق شاید پبلشرز نے شئیر کیا تھا۔ کتاب کا نام اتنا دلکش تھا کہ نظریں ایک دم سے اٹک گئیں۔ ’کالے جسموں کی ریاضت‘۔ کیا خوبصورت عنوان ہے۔ کالے جسموں کی صدیوں پہ محیط ریاضت کا درد سرورق سے چھلک رہا تھا۔ ترجمہ کرنے والوں کے نام درج تھے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور جاوید دانش۔
ڈاکٹر خالد سہیل کے کئی کالم ’ہم سب‘ پہ میں پڑھ چکا تھا۔ ان کی انسان دوستی، محبت، رواداری، مثبت سوچ، حق گوئی، انصاف پسندی اور زندگی کو جی بھر کے جی لینے کی آرزو جیسی خوبیوں سے بے حد متاثر ہوا۔ وہ ماہر نفسیات، دانشور، افسانہ نگار، شاعر، کالم نگار اور محقق ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر انسانوں سے محبت کرنے والے۔ یقیناً ان کا انتخاب خوبصورت ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سوچ کر فوری واٹس ایپ نمبر پہ کتاب منگوانے کا آرڈر دے دیا اور دو تین دنوں میں کتاب کراچی سے پاکپتن آ پہنچی۔ وہ بھی صرف 430 روپے بمعہ ڈاک خرچ میں۔
افریقی ادب میں وہ سارے مسائل گندھے نظر آتے ہیں جن کا سامنا سیاہ فام نسل کے لوگ کرتے آئے ہیں۔ اس کتاب میں بھی کہیں غلامی کی بے رحم زنجیروں میں جکڑے کالے جسم نظر آتے ہیں جو آزادی اور برابری سے زندہ رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔ کہیں ان زخموں سے چور جسموں پہ نسلی امتیاز کے کوڑے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں غربت اور بھوک کی آندھیاں چنگھاڑ رہی ہیں تو کہیں قحط، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری، احساس محرومی اور ظلم کے گہرے سائے چھائے ہیں۔
سیاہ فام ادیبوں کے ادب پاروں میں آزادی کی تمنا سانس لیتی نظر آتی ہے۔ نسلی امتیاز کے خلاف پر زور احتجاج ہے جو آسمان کا سینہ بھی چاک کر دیتا ہے۔ انصاف اور احترام آدمیت کی التجا ہے جو مردہ دلوں پہ جمی برف کی دبیز تہہ پگھلا دیتی ہے۔ روشن صبح کے لیے جدوجہد ہے جو گھور اندھیری رات کو بھی شان سے جی لینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ ادب پارے ایک آئینہ ہیں جس میں گورے لوگ اپنا چہرہ دیکھ کے پانی پانی ہو جائیں۔
افریقی ادب کے یہ شہ پارے پڑھنے سے قاری کی سوچ کو نئی وسعتیں عطا ہوتی ہیں۔ کالے جسموں کی طویل اور سخت ریاضت سے اٹھتی درد کی ٹیس کو وہ محسوس کرتا ہے۔ آزادی اور انصاف کی قدرو قیمت سے شناسائی ملتی ہے۔ زندگی کو بہتر طریقے سے جینے کا درس ملتا ہے۔ ژاں پال سارتر کے نزدیک ’انسان کو سمجھنے کے لیے انسان کی تباہی کی کہانی اور ظلم کے قصے کو سمجھنا بہت ضروری ہے‘۔ لہذا کتاب میں موجود ظلم کی داستانیں ہمیں انسان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر کی کتاب ’وٹ از لٹریچر‘ کے باب ’بلیک آرفیس‘ کا اردو ترجمہ ’دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس میں خوبصورت خیالات ہیں جن کی ایک چھوٹی سی جھلک دیکھیے۔
’سفید فام لوگون نے ہر چیز کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا۔ اپنی جلد کی سفیدی کو ایک خاص رنگ دیا۔ انہوں نے سفیدی کو دن، حسن، سچائی، نیکی اور ایسی روشنی سمجھا جو زندگی کی تاریکیوں کو اجاگر کر دیتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ کالے لوگ اعتماد سے کھڑے ہو گئے ہیں اور کالی روشنی سے ماحول کو منور کر رہے ہیں۔ ‘
’وہ (سیاہ فام ادیب) سیاہ رات کو صرف گناہ اور محرومی کی علامت ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسے جدوجہد کی علامت بھی بناتے ہیں۔ ایسی جدوجہد جس کی کوکھ سے صبح طلوع ہو گی۔ ‘
سارتر مزید لکھتا ہے کہ ’سیاہ فام شاعر اپنی نظموں کی فضا میں الفاظ ایسے اچھالتا ہے جیسے آتش فشاں پہاڑ کے دہانے سے پتھر نکلتے ہیں۔ اور وہ الفاظ کے پتھر یورپ اور کلونیلزم کی عمارت کو مسمار کرتے رہتے ہیں‘۔
’وہ ایک ایسے مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جہاں انسان انسانیت کے ناطے سے پہچانے جائیں گے نہ کہ جلد کی رنگت کی وجہ سے‘۔
مضمون کے آخر پر سارتر سیاہ فام لوگوں کی حوصلہ افزائی کچھ یوں کرتا ہے
’اے سیاہ فام لوگو
اپنی جدوجہد تیز کر دو
اتنا زور سے چیخو کہ
دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘
اس سے قبل میں نے مشہور ناول ’تھنگز فال اپادٹ‘ پڑھا ہوا تھا جو نائجیریا کے سیاہ فام ادیب چنوا ایچی بی کی شاہکار تخلیق ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی شہرہ آفاق تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ کا متن بھی پڑھا ہوا تھا۔ اور اب ’کالے جسمون کی ریاضت‘ میں افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ کے نامور سیاہ فام ادیبوں کے فن پارے پڑھنے کا موقع ملا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب سیاہ فام ادیب اتنے زور سے چیخے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سارتر کی روح کو خوشی ملی ہو گی۔
افریقی شعراء کی خوبصورت لطیف خیالات سے لبریز نظمیں ہیں جو ڈاکٹر خالد سہیل نے ترجمہ کی ہیں۔ برناڈ ڈاڈی کا تعلق کوٹے ڈی آئیوری سے ہے جو مشہور شاعر، ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انہوں نے فرانسیسی استعماریت کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی باکمال اور عالمی شہرت یافتہ نظم ’اے خدا تیرا شکر ہے‘ بھی کتاب کا حصہ ہے۔
’اے خدا تیرا شکر ہے
کہ تو نے مجھے کالا پیدا کیا
میں ساری دنیا کے دکھ اور غم اپنے کندھوں پر لیے پھرتا ہوں
میں کالی رات میں اتنے قہقہے لگاتا ہوں
کہ وہ صبح کا روپ اختیار کر لیتی ہے‘
نائیودا اوساہون کی ایک نہایت جاندار نظم ’ایک سادہ کالا آدمی‘ ہے جس کے تیز دھار الفاظ قاری کے دل میں بہت گہرے اترتے چلے جاتے ہیں۔ سیاہ فام درد کی جس چکی میں پستے ہیں وہ درد بھی عیاں ہے۔ نظم کا ٹکڑا پڑھیے۔
’اگر
ایک چور
تمہاری ماں، بیوی اور بیٹی سے زنا بالجبر کرے
تمہیں بے دردی سے مارے
اور تمہارے مال و دولت سمیت فرار ہو جائے
اور
برسوں بعد
جب پولیس اسے نہ پکڑ پائی ہو اور قانون نے اسے سزا نہ دی ہو
اور وہ تمہیں پارٹی میں مل جائے
تو تم کیا کرو گے؟
کیا اسے معاف کر دو گے اور بھول جاؤ گے؟
اگر ایسا ہے تو تم ایک سادہ کالے آدمی ہو‘
جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور سیاہ فاموں کی آزادی کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے نیلسن منڈیلا کے چند خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
نائجیریا کے نوبل انعام یافتہ ادیب وول سونیکا کا ڈرامہ ’دلدل کے باسی‘ میں جنوبی نائجیریا کے پسماندہ دیہاتی زندگی کے کردار سخت مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک نا امیدی سی چھائی ہے۔ کوئی ایسا مشکل کشا بھی نہیں جو مصائب بھری زندگی میں مدد کر سکے۔ کوئی قحط اور پانی کی کمی کے مارے ہیں تو کوئی پانی کی زیادتی سے تباہی کی دلدل میں ہانپ رہے ہیں۔
’فقیر: ساری محنت ٹڈی دل کے ایک حملے سے صاف ہو گئی۔ پھر میں گھر سے نکلا اور لوگوں کو آواز دینے لگا کہ کوئی مجھے دریا کا راستہ بتا دے۔ ایک راہگیر نے پوچھا کون سا دریا۔ میں نے کہا کسی بھی دریا یا ندی کی طرف میرا منہ کر دو۔ مجھے پانی کے قریب رہنا ہے۔ کیوں کہ اب میں سوکھے سے بیزار ہو چکا ہوں۔ ‘
’ماکوری: کبھی کبھی دیوتاؤں سے بھی بانٹنے میں بھول ہو ہی جاتی ہے۔ وہ ہر ایک کو ایک طرح سے نہیں بخشتے۔ ‘
ارنی ڈنگو کی نظم ’ایک خیال‘ ایک اچھوتا خیال پیش کرتی ہے۔
’ہم سیاہ فام لوگوں کی خدمات
چاند کے تاریک پہلو کی طرح ہیں
جو موجود تو ہے
لیکن
اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ‘
امریکی مصنف اورسماجی کارکن مایا انجیلو کا ایک مضمون ’ڈینٹسٹ اور ماما‘ ایک درد بھری داستان بیان کرتا ہے۔ جس میں مایا کی نانی اس کا دانت نکلوانے گورے ڈینٹسٹ کے پاس لے جاتی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ وہ ایک کتے کے منہ میں ہاتھ ڈال لے گا لیکن ایک نگر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ ایک کم عمر بچی اپنی نانی اور ڈینٹسٹ کی نسلی کشمکش کو کیسے دیکھتی ہے یہ دلچسپی کا ساماں ہے۔ بچی تخیل میں دیکھتی ہے کہ اس کی نانی نےگورے ڈینٹسٹ اور گوری نرس کی خوب دھلائی کی ہے اور ان پہ حاوی آ گئی ہے۔ یہ ایک سیاہ فام بچی کا خواب ہے حقیقت نہیں۔
یہ مضمون مایا انجیلو کی سوانح عمری کی پہلی کتاب ’I know why the caged bird sings‘ سے لیا گیا ہے۔ اس میں مایا نے تین سال سے سولہ سال تک کے اپنے حالات قلم بند کیے ہیں۔
اس میں ’مایا‘ ہر سیاہ فام امریکی لڑکی کی علامت بن جاتی ہے۔ قیدی پرندہ بھی سیاہ فام لوگوں کی علامت ہے جو گوروں کے بنائے قانون کے پنجرے میں پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں۔ مایا انجیلو نے کتاب کا ٹائٹل سیاہ فام امریکی شاعر پال لارنس ڈنباز کی نظم سے لیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’میں جانتا ہوں قیدی پرندہ کیوں گاتا ہے۔ یہ خوشی کا گیت نہیں گاتا ہے۔ بلکہ یہ زخمی دل کی پکار ہے جو وہ آسمان کی طرف اُچھالتا ہے‘۔
زہرا ہرسٹن امریکی سیاہ فام ادیب تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتداء میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی۔ ایک دفعہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے پکڑی گئیں تو اس نے جج کے سامنے یہ توجیہہ پیش کی ’میں نے سفید فام لوگوں کو سبز بتی پر سڑک پار کرتے دیکھا تو سمجھی کہ سرخ بتی کالوں کے لئے ہے‘ زہرا ہرسٹن کا ایک خوبصورت مضمون ’سیاہ فام ہونے کا احساس‘ کتاب کی زینت بنا ہے۔ زہرا ہرسٹن لکھتی ہیں۔
”میں نیگروز کے اس طبقہ فکر کی ممبر نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے انہیں کالا پیدا کر کے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ میں نے اپنی بے ترتیب زندگی میں جلد ہی یہ معلوم کر لیا تھا کہ اس دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ چاہے اس کی جلد کالی ہو یا گوری“۔
”بعض اوقات مجھے احساس ہوتا ہے کہ لوگ میرے کالے ہونے کی وجہ سے مجھ سے دور رہتے ہیں۔ مجھے اس وقت غصہ نہیں آتا۔ حیرانگی ضرور ہوتی ہے کہ وہ لوگ کیوں کر میری دلچسپ قربت سے اپنے آپ کو محروم کرتے ہیں۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے“۔
لوک کہانی ’لوگ جو اڑ سکتے تھے‘ ایسی کتھا ہے جو دل و دماغ کو ہلا دیتی ہے۔ افریقی لوگ غلامی سے ہر قیمت آزادی چاہتے ہیں۔ کچھ نے گورے آقاؤں کی حکم عدولی کی اور مارے گئے۔ کچھ فرار ہو کر سمندر میں گھس گئے تا کہ افریقہ واپس جا سکیں۔ جانوں سے تو گئے مگر غلامی سے آزاد ہو گئے۔ کچھ منتر پڑھ کر اڑ جاتے ہیں اور واپس افریقہ اپنے آبائی علاقوں میں جا اترتے ہیں۔ لوگ بھلا کبھی اڑے ہیں۔ اُن کے تو پنکھ ہی نہیں ہوتے۔ ہاں مگر کہانی میں ضرور اڑ سکتے ہیں۔ کہانی میں تو سیاہ فام غلامی میں پسے لوگوں کی آزادی کی آرزو صاف نظر آتی ہے۔ کاش وہ قسمت کے مارے سچ میں اُڑ سکتے۔
مارٹن لوتھر کنگ کی عظیم جدوجہد کا مختصر تعارف بھی ہے اور ان کی جاندار تقریر ’میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘ کا کچھ حصہ بھی۔ یہ تقریر 28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں دو لاکھ پچاس ہزار کے مجمعے میں کی گئی۔
’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن جارجیا کے سُرخ پہاڑوں پر آقاؤں اور غلاموں کے بیٹے ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے‘
’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن میرے چاروں بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں اُن کا کردار اُن کی جلد کے رنگ سے زیادہ اہم ہو گا‘
’کالے جسموں کی ریاضت‘ افریقی ادب کا خوبصورت گُلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول ہیں۔ ان پھولوں سے دل لُبھانے والی مہک بھی ہے اور درد اور دُکھوں کے قطرے بھی ہیں جو لہو کی طرح ٹپک رہے ہیں۔
کتاب کے حوالے سے ایک شکوہ بھی ہے کہ اس کے صفحات کم ہیں۔ ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے اور پھر افریقی ادیبوں کا تعارف بھی ہونا چاہئیے تاکہ ان سے بہتر شناسائی ہو سکے۔ کچھ نظمیں ایسی بھی درج ہیں جن پہ اُن کے خالقوں کے نام تک درج نہیں۔ قاری کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کسی سیاہ فام ادیب کی تخلیق کردہ ہیں یا پھر ان کے خالق ڈاکٹر خالد سہیل خود ہیں۔
کتاب کا انتساب پڑھ کے دل خوش ہو گیا۔ ارے واہ۔ اس سے بہتر انتساب نہیں ہو سکتا۔
کالے قلمکاروں کے سنہرے افکار
اور
روشن مستقبل کے نام۔
کالے جسموں کی ریاضت (پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »
پروفیسر احمد نعیم چشتی
صدیوں پہلے پاکپتن اجودھن ہوا کرتا تھا۔ تیرہویں صدی میں صوفی بزرگ بابا فریدالدین گنج شکر اجودھن آئے تو اسی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ستلج کنارے آباد اس بستی پہ بابا فرید کا ایسا رنگ چڑھا کہ اس نے اجودھن نام کی پرانی اوڑھنی اتار پھینکی اور ’پاک پتن‘ نام کا چولا پہن لیا۔ تب سے اب تک اس چھوٹے شہر کی بڑی پہچان یہی ہے کہ یہاں سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ بابا فریدالدین کا آستانہ ہے۔ ملک کے طول و عرض سے ہزارہا زائرین پورا سال پاک پتن درگاہ بابا فرید گنج شکر پہ حاضری دینے آتے رہتے ہیں۔ ہر سال پچیس ذوالحج سے دس محرم تک آپ کے عرس کی تقریبات پاک پتن میں منائی جاتی ہیں۔ پانچ سے دس محرم عرس اپنے عروج پہ ہوتا ہے۔ انڈین پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں بھی بابا فرید کی یاد میں ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتے عرس منایا جاتا ہے۔ ہندو، سکھ اور مسلمان ٹلہ بابا فرید جی پہ آتے ہیں، دیے جلاتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ پہلے وہ شہر بھی موکلہار کہلاتا تھا۔ بابا فرید الدین وہاں کچھ دن ٹھہرے تو وہ شہر ’فرید کوٹ‘ ہو گیا۔
پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کا سات سو چھہترواں عرس منایا جا رہا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے زائرین امڈ آئے ہیں۔ شہر کی گلیوں، سڑکوں اور حویلیوں میں آدم ہی آدم دکھائی پڑتا ہے۔ پاک پتن پہلے سا شہر نہیں رہا گویا بھیس بدل لیا ہو اور اصل چہرہ چھپا لیا ہو۔ گاڑیوں کا رش، شور مچاتے انجن، دھوئیں کے بادل اور ہارن کی پیں پیں پاں پاں۔ ریلوے لائن کے ساتھ، سڑکوں کے کنارے اور خالی جگہوں پہ گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ ہم پاکپتن والوں نے بھی خالی جگہوں کو پارکنگ لاٹ بنا دیا ہے۔ پیسے وصولتے ہیں تب گاڑی کھڑی کرنے دیتے ہیں۔ دوسرے شہروں سے آئے زائرین نے مکان کرائے پہ لے لیے ہیں۔ ہم عرس کے دنوں میں کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ چند دن کا کرایہ ہزاروں روپے بنا لیتے ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار وسل بجاتے رہتے ہیں۔ خوب رونق ہے۔ جا بجا دیگیں پک رہی ہیں۔ لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔ حویلیوں، ڈیروں اور خانقاہوں میں قوالی کی محفلیں سجی ہیں۔ ہر قوال کو سامعین میسر ہیں جو قوالوں پہ نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ نوٹ اڑتے ہیں تو فنکاروں کے رگ و پے میں جوش بھر جاتا ہے۔ طبلے کی تھاپ، ہارمونیم سے نکلتے سر، ہمنواؤں کی تالیاں، آنکھ موندے جھومتے سامعین اور دھمال ڈالتے ملنگ۔ محفل سما پہ جوبن آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عالمی شہرت یافتہ فن قوالی کے بیج پاک پتن درگاہ بابا فریدالدین پہ پروان چڑھے۔ پاکپتن نے کئی نامور قوال گھرانے پیدا کیے۔ نصرت فتح علی خان، بدر میانداد، صابری برادران سمیت قوالی کے بڑے نام پاک پتن کو اپنی روحانی درسگاہ مانتے اور یہاں پرفارم کرنا سعادت گردانتے۔
عرس شروع ہوتے ہی شہر میں کاروبار انگڑائی لے کے اٹھ بیٹھتا ہے اور کاروباری لوگ یوں جاگ جاتے ہیں کہ دن رات سوتے ہی نہیں۔ جگہ جگہ نئے اسٹالز اگ آتے ہیں۔ دکانیں برقی قمقموں سے سجائی جاتی ہیں۔ ہر سو چائے کے کھوکھے کھلے ہیں۔ برفی، چم چم، توشہ اور گلاب جامن کی ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔ دہی بھلے، برگر، آلو چاٹ، سموسے پکوڑے، مکئی کے بھٹے، دال چاول، لڈو پیٹھیاں غرض کہ سب کھانے کو دستیاب ہے۔ بے روزگار نوجوانوں نے عرس کے دنوں مکھانے اور شکر کی ریڑھیاں لگا لی ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران سب آباد ہو چکے ہیں۔ شام ہوتے ہی جو بازار اونگھنے لگتے تھے اب رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔
اٹھ فریدا ستیا جھاڑو دے مسیت
توں ستا رب جاگدا، تیری ڈاہڈے نال پریت (بابا فرید)
ڈھولچی گلیوں بازاروں میں ڈھول بجاتے پھرتے ہیں۔ زائرین جماعتوں کی شکل نذرانہ چڑھانے دربار کی طرف رواں ہیں۔ سرخ، سبز اور نیلے پیلے چولے پہنے ملنگ دھمالیں ڈالتے ہیں۔ لمبے بکھرے بال، ننگے پاؤں، الجھی داڑھیاں، انگلیوں میں رنگ برنگے نگوں کی انگوٹھیاں پہنے، شوخ رنگ کے کپڑے سے کمر کسے، عقاب پروں سے ہاتھ پھیلائے یہ خرقہ پوش ناچتے ہیں۔ یہ کسی اور دنیا کے واسی دکھتے ہیں۔
کالے میڈے کپڑے کالا میڈا ویس
گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہیں درویش (بابا فرید)
انچ محرم کو بہشتی دروازہ کھلتا ہے۔ بابا فرید الدین کے حجرے کے جنوبی دروازے سے لوگ قطار باندھ کے داخل ہوتے جاتے ہیں اور مشرقی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پورا سال یہ دروازہ بند رکھا جاتا ہے۔ پانچ سے دس محرم کھولا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بابا فرید گنج شکر کے مرشد نے فرمایا تھا کہ جو فرید کے در سے گزرے گا امان پائے گا۔ اب ہر سال ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں۔ امان پانے کی تمنا، بہشت کے حصول کی آرزو، بابا فرید سے محبت یا پھر ثقافتی سرگرمی میں حصہ لینے کی خواہش محرک کوئی بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد حق فرید یا فرید کے نعرے بلند کرتی بہشتی دروازے سے گزرتی ہے۔ درگاہ اس فلک شگاف نعرے سے گونجتی رہتی ہے
اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید۔
ریلوے پھاٹک سے دربار تک میل بھر لمبی قطار باندھے لوگ بہشتی دروازہ گزرنے کے لیے عصر سے پہلے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دروازہ رات آٹھ بجے کھولا جاتا ہے۔
بہشتی دروازہ گزرنے والےدو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ اور خاص لوگ۔ خاص لوگوں کے لیے خاص انتظامات ہوتے ہیں۔ ان میں درگاہوں کے گدی نشین، سیاستدان، زمیندار، کاروباری امراء، سرکاری عہدے داران وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ قطار میں کھڑے ہونا ان کی شان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کے لیے ڈی پی او آفس سے وی آئی پی کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ راستہ ہوتا ہے جہاں ان کو روکا نہیں جاتا۔ دھکم پیل نہیں ہوتی۔ امیر آدمی ہوتے ہیں لہذا پولیس کی بڑھکیں اور ڈنڈے ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔ گاڑیوں کے لیے بھی خصوصی پاس جاری ہوتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھیے اور مزے سے بلا روک ٹوک ٹور کے ساتھ جائیے۔ قطار باندھنا تو غریبوں کا شیوہ ہے۔
عام لوگوں کی لمبی قطار لگی ہے۔ ان کے پاس نہ گاڑی نہ وی آئی پی کارڈ۔ نہ کوئی پولیس اہلکار دوست ہے۔ وہ دیہاتوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ سہ پہر سے ہی گرمی میں کھڑے ہیں۔ پولیس اہلکار ڈنڈے لہرا کر ان کو قابو میں رکھتے ہیں۔ پھر بھی گڑ بڑ کریں تو ڈنڈے برسا کر دماغ ٹھکانے رکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے پیسہ نہیں کمایا، گاڑیاں نہیں لیں، اثرو رسوخ والے نہیں اور نہ ہی کسی بڑے باپ کے گھر پیدا ہوئے۔ ارے کچھ بھی نہیں کیا تو پھر ریلوے پھاٹک پہ لگ جاؤ لائن میں۔ چلو شاباش!
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک (روٹی)
جے لبھے نہ چھیواں پنجے ای جاندے مک (بابا فرید)
کئی سال قبل بہشتی دروازے سے گزرتے بھگدڑ مچی تھی اور کئی افراد جان سے گئے۔ سات سال پہلے درگاہ کے مرکزی دروازے پہ بم دھماکہ ہوا تھا جس میں سات جانیں چلی گئیں تھیں۔ پھر بھی لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ موت زندگی کا راستہ روکنے میں ناکام ٹھہری۔ زندگی کا دھارا بہت حوصلہ رکھتا ہے۔ ہر پل بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ بابا فرید سے پریت نبھانے والے پل بھر کے لیے نہیں ٹھٹھکے۔
فریدا ایسا ہو رہو جیسا ککھ مسیت
پیراں تلے لتاڑئیے کدی نہ چھوڈیں پریت (بابا فرید)
عرس پہ پنجاب بھر سے پولیس اہلکار ڈیوٹی پہ آتے ہیں۔ شہر کے سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔ سکولوں میں نفری کی رہائش کابندوبست ہوتا ہے۔ طالب علموں اور اساتذہ کو عرس کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ چھٹیاں جو ملتی ہیں۔ مزے سے میلہ دیکھو۔ تنخواہ بھی وصول پاؤ۔
عرس پہ کبھی لکی ایرانی سرکس لگتا تھا۔ اتنا رش ہوتا تھا کہ ٹکٹ لینے کے لیے تگڑے پہلوان نما شخص کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ وہ بھی جب سب دوستوں کی ٹکٹیں اپنے زور بازو پہ جم غفیر کو چیر کے خرید لاتا تو اس کی قمیض کا گھیرا پھٹ چکا ہوتا یا چاک گریبان لوٹتا۔ موت کا کنواں لگتا تھا جس میں خواجہ سرا ناچتے تھے اور بعد میں کار یا موٹر سائیکل کی خطرناک کرتب دکھائے جاتے تھے۔ بہت سارے لاؤڈ اسپیکرز پہ گانے بج رہے ہوتے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اکھاڑے اور تھیٹر میں لائیو پرفارمنس ہوتی تھی۔ کچی ٹاکی فلمیں چلتی تھیں۔ مختلف کھیل تماشے لگتے تھے۔ طرح طرح کے جھولے ہوتے۔ سب لوگ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو کچھ دیر بھلا کر ہنس لیتے تھے۔ لیکن جب سے دہشت گردی کا مکروہ کھیل شروع ہوا وہ میلہ اجڑ گیا۔ موت کے اس بھیانک کنویں میں زندگی کا سرکس ویراں ہو گیا۔ اب نہ ٹکٹ بکتے ہیں اور نہ گاؤں کے پہلوان میلہ دیکھنے آتے ہیں۔
حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کو پنجابی کا پہلا شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ آپ کے اشلوک سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ آپ کے فلسفے کی چھاپ آٹھ صدیوں کے بعد بھی اتنی گہری ہے کہ آج بھی پاک پتن میں لوگ اپنے بچوں کے نام بابا فرید کی نسبت سے رکھتے ہیں۔ غلام فرید نامی لوگ اس نسبت کا ثبوت ہیں۔ آج بھی شہر میں جا بجا دکانوں، کالج، لائبریری، مساجد، مدرسے، میرج ہال اور فیول پمپ بابا فرید کے نام سے جڑے نظر آتے ہیں۔ شہر کا اکلوتا کالج فریدیہ کالج ہے۔ بابا فرید گنج شکر نے انسان کو اولین ترجیح دی۔ سب انسانوں سے محبت کی۔ کسی بھی شخص کو مذہب، عقیدے یا فرقے کی بنا پر دھتکارا نہیں۔ لوگوں کو محبت اور امن کا درس دیا۔ رواداری اور بھائی چارے کا جو سبق بابا فرید نے پڑھایا اس کا درس آج بھی ان کے آستانے پہ جاری ہے۔ ان کے آستانے پہ تمام مذاہب اور عقائد کے لوگ آتے ہیں۔ آج بھی ان کے آستانے پہ محبت اور امن و آشتی کے اس عالمگیر احساس کا سایہ ہے جو بد قسمتی سے ملک کے گلی بازاروں میں نظر نہیں آتا۔ ان کی درگاہ پہ سنی، شیعہ، وہابی، سکھ، ہندو، مسلمان کی تفریق نہیں ہوتی۔ معاشرے کی اتنی بڑی خدمت اور کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔
کوک فریدا کوک توں جیوں راکھا جوار
جب لگ ٹانڈہ نہ گرے تب لگ کوک پکار (بابا فرید)
کوک فریدا کوک (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »
Prof. Ahmad Naeem Chisti
’چھانگیا رکھ‘ بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی ہے جو سن دو ہزار دو میں پنجابی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متعدد زبانوں میں تراجم کیے جا چکے ہیں۔ دو ہزار دس میں آکسفورڈ پریس نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یوں ’چھانگیا رکھ‘ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی۔
’چھانگیا رکھ‘ کو ’دلت لٹریچر‘ میں اہم مقام حاصل ہے۔ دلت لٹریچر میں ہندوستان کے اچھوت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ دلت لٹریچر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی پکار ہے۔
بلبیر مادھوپوری ہندوستان کے ضلع جالندھر کے گاؤں مادھو پور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاعر ہیں۔ پنجابی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ مترجم اور محقق بھی ہیں۔
بلبیر مادھوپوری نے کتاب کا عنوان بہت خوبصورت چنا ہے۔ ’چھانگیا رکھ‘ ! پنجابی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسے درخت کو کہتے ہیں جسے چھانگ دیا گیا ہو۔ جس کی ٹہنیاں اور شاخیں کلہاڑی سے کاٹ دی گئی ہوں۔ چھانگیا رکھ دوسرے درختوں سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔ قدرتی پیڑوں والی خوبصورتی اور کشش سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ٹنڈ منڈ سا ہو جاتا ہے۔ چھانگیا رکھ دلت کمیونٹی، نچلے اور مظلوم طبقے، حتی کہ ہر مظلوم شخص کی علامت بنتا ہے جنہیں آزادی اور عزت کے ساتھ جینے نہیں دیا جاتا۔ سماج میں ان کو پنپنے کے مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں آتے۔ ان کو چھانگیا رکھ بنا دیا جاتا ہے۔
بلبیر مادھوپوری کا چھانگیا رکھ جہاں مظلومیت کا استعارہ ہے وہاں یہ مزاحمت، نئی زندگی اور ترقی کا بھی استعارہ ہے۔ کیونکہ پیڑ کو جب چھانگا جاتا ہے تو پھر اس پہ نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز اور دلکش ہوتی ہیں۔
چھانگیا رکھ میں بلبیر مادھوپوری نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی دکھائی ہے۔ وہ کٹھن حالات دکھائے ہیں جن سے اس کا خاندان گزرا۔ یہ ایسے طبقے کی سچی داستان ہے جو محرومی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہے۔ یہ محرومی اور ذلت معاشرے اور نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی دین ہے۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ان کے طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ غربت یا محرومی نہیں ہے بلکہ وہ تحقیر ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ بستی ہے۔ یہ کتاب ہمیں ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ دلت کمیونٹی، شیڈول ذاتیں، چمار، اچھوت اور دیگر ’نمانے لوک‘ ذات پات کے ایسے بے رحم نظام میں پھنسے ہیں جن میں وہ آزادی سے محروم ہیں۔ نہ شخصی آزادی ہے نہ سیاسی۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ذات پات کا یہ نظام خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ انسانوں کی ہی تخلیق ہے۔
یہ کتاب غربت کا بھیانک چہرہ بھی دکھاتی ہے۔ جس طبقے کو مساوات اور آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے وہ غربت میں دھنستا جاتا ہے۔ بلبیر مادھو پوری کا خاندان اور ان کی کمیونٹی کے دیگر لوگ انتہائی غربت میں جیون بسر کرتے ہیں۔ دادی مردہ جانوروں کا گوشت کھانے کا دور بھی یاد کرتی ہے۔ وہ لوگ مردہ جانوروں کی چربی کو گھی کی جگہ استعمال کرتے تھے۔
نچلی ذات کے لوگوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ گاؤں میں ان کی آبادی بھی ایک طرف الگ ہوتی ہے۔ وہ گرودوارے نہیں جا سکتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو نہیں چھو سکتے۔ ان کو انسان ہونے کا مقام بھی نہیں دیا جاتا۔
بلبیر مادھو پوری کے نزدیک دلت کمیونٹی کی مساوات اور برابری کے حصول کی یہ تحریک یتیم ہے۔ معاشرہ اس تحریک کا بھرپور ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی مذہبی یا سیاسی تحریک ایمانداری سے ذات پات کے نظام کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتی۔ ذات پات کے نظام کی جڑیں بدقسمتی سے بہت گہری سرایت کر چکی ہیں۔
’چھانگیا رکھ‘ اور دلت لٹریچر امریکہ کے کالے لوگوں کے لٹریچر سے مماثلت رکھتا ہے۔ دلت اور بلیک طبقے اپنے اپنے ممالک میں ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ دونوں طبقات کو عزت، آزادی اور قبولیت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب تھا کہ امریکہ میں ایک دن ایسا آئے گا کہ گوروں اور کالوں کے بچے ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ اسی طرح بلبیر مادھو پوری کا بھی خواب ہے کہ ایک دن ہندوستان میں ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ انسان اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور کردار سے جانچے جائیں گے۔ سب انسان برابر تصور کیے جائیں گے اور سبھی عزت و تکریم کے حقدار ٹھہریں گے۔
انیس سو اٹھاون میں جب مارٹن لوتھر کنگ ہندوستان آئے اور انہوں نے دلت لوگوں کی مصیبتوں کو جانا تو انہوں نے کہا کہ ’میں بھی ایک دلت ہوں کیونکہ ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں۔‘
’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر مادھوپوری ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ جب لوگ ذات پات کو مذہب اور خدا کی مرضی سے جوڑتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ ایسا مذہب جو انسانوں کی برابری نہیں چاہتا، جو مساوات اور انسانوں کی تکریم نہیں دیکھ سکتا تو پھر ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟
بلبیر مادھوپوری تعلیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ مظلوم طبقے کے پاس تعلیم کی سیڑھی ہے جو وہ بہتر جگہ پر پہنچنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر کے بھائیا (والد) بھی چند ’اکھر‘ پڑھ کر محرومی اور ذلت کی دلدل سے نکلنے پر زور دیتے ہیں۔
’چھانگیا رکھ‘ میں دیہاتی زندگی کے سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ دیہاتی کلچر دیکھنے والوں کے لئے بھی یہ کتاب بہترین تحفہ ہے۔
یہ کتاب ایک آئینہ ہے۔ اس میں ہمیں اپنے معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔ ظلم، طبقاتی کشمکش اور کمزور طبقات کی مجبوریاں جو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں وہ اس کتاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی عالمگیریت اس کتاب کی بڑی خصوصیت ہے۔
کتاب کی نثر میں روانی اور سادگی ہے۔ بلبیر مادھو پوری چونکہ شاعر ہیں تو نثر میں بھی شاعری کی مٹھاس اور موسیقی گندھی ہوئی ہے۔ دیہاتی رہن سہن سے لیے گئے استعارے بہت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے ہیں۔
’چھانگیا رکھ‘ پنجابی، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اسے پڑھیے اور اپنے ذہن کے دریچوں میں بلبیر مادھو پوری کی جلائی ہوئی شمع کی کرنیں بکھیرئیے۔ اور بلبیر مادھو پوری کے اس خوبصورت پیغام کو دل میں جگہ دیجیے کہ تمام انسان قابل عزت ہوتے ہیں اور محبت کرنے کے قابل بھی۔
چند دن قبل ’چھانگیا رکھ‘ پر ایک تعارفی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تو بلبیر مادھوپوری جی نے سوشل میڈیا کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا۔ وٹس ایپ پر ان کی کال آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پنجابی میں بات کر رہے تھے تو مجھے اپنے ہی گاؤں واسی لگتے تھے۔
میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسی شاہکار کتاب کے مصنف میرے کانوں میں گیان گھول رہے تھے۔ انہوں نے میرے تجزیے کی تعریف کی۔ بابا فرید الدین کی شاعری پہ بات کی۔ اپنے گاؤں مادھوپور کے بارے میں بھی باتیں کیں۔ بتایا کہ بٹوارے میں جب مادھو پور کے مسلمان پریوار گاؤں چھوڑ کے نئے ملک کی طرف گئے تو مادھو پور میں افسوس کا یہ عالم تھا کہ گاؤں میں اس دن کسی نے کھانا نہیں پکایا تھا۔ محبت کی ایسی کہانیاں بلبیر مادھو پوری شاعری اور نثر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ سچے اور کھرے ادیب جو ٹھہرے۔
چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »
Marketing of Information Management Services
‘Marketing of Library Services in Modern ways’
Marketing of information management centers’ services is vital to keeping their users and potential users informed and educated about the resources and services that match their needs and interests. Effective marketing skills are needed to increase awareness of the information center’s value and to expand its user base.Marketing in information centers is the link between its user’s needs and its resources and services; as aninformation marketer, he/she must create that link. His/her skills will help to connect the centerwith its users, so they will know how to get information many other ways without even coming to the information center building or interacting with information provider. With constant competition from other information providers centers, information providerneeds to communicate with their users that they can meet their needs better than other providers. With the development of technology, we just need to change that stereotype. Marketing of information centers reminds users that their center is still a great choice for meeting their information needs in today’s world.
Need of Marketing in Information Centers
Libraries and now information centers are facing a time of unexpected change and challenge. Recent technological developments are creating new forms of information, new sources of information and new ways of providing information bypassing traditional institutional like libraries. There has been an increasing pressure on libraries to mobilize resources and become self-reliant. Library users are transforming into customers with rising expectations, diverse needs and wants, and choices. Now, the real challenge for library and information professionals is not to manage the collection, staff and technology but to turn these resources into services. The concept of services has also changed, from basic to value added, from staff assisted to self -service, from in-house to outreach, from free to priced, from reactive to pro-active, and from masscustomization to individualized service.
In this environment information providers are finding new ways of serving users or customers effectively and efficiently. The information centers have gradually accepted both as relevant and beneficial ways. Marketing provides an opportunity to see as to how they can offer effective and efficient services to their users or customers.
Due to blast of information at global level, the more information available in the market, it is necessary to theinformation centersto meet the needs of users. In information management framework, the users are information needed, patrons, employees, etc. As such, satisfaction of the customer is of primary concern in the marketing process and the entire ethos and shared values of the organization owe the responsibility of satisfying the customer.
PAKISTANISCENARIO
The developments taken place world over influenced the Pakistani librarianship as well. There has been a number of developments in marketing of library and information management services in the country. Many of our schools are fully aware of this area and included the course of “LIS marketing in their curricula.
Dr. Haroon Idrees &Ataur Rehman (2009) introduced a third-party theory in LIS marketing. “Now it is not only a two-way communication and dissemination system from information provider to information users rather it also involved funding agency, doners (third-party)”.
Third-party
Information providers Information Users
Information centers are the best candidates for marketing among non-profit service organizations. The important thing is to understand the needs of users and communicate in the way they can understand and satisfied. The public image of the information centers comes through experiences or loyalty with their users. of truth when users. All promotion, advertisement, promises, will be wasteful if information centers are unable to transform these experiences into pleasant ones and that too from user’s point of view. Marketing helps the staff’s expertise, further an organization’s mission, promote services by quickly and efficiently finding the right information at the right time, and add value to an organization’s products and services. Without any promotional effort, some key individuals may not be supporters or even users of the Information Centre. Therefore, information centers will look impressive and will emerge as activists’ services providers to the users. Every service activity must be performed with a conscious mind to meet users’ needs exceptionally.
Marketing of Information Management Services (Fakhra Khalid) Read More »
Changing Scenario: Stone Age to Digital Age
(A paradigm shift from clay tablets to e-tablets in libraries)
Back to the history, before the advent of online search engines, people usually found their questions to the most reliable source they knew was their local library.
The library concept dates back millennia. The first systematically organized library in the ancient Middle East was established in the 7th century BCE by Assyrian ruler Ashurbanipal in Nineveh, in contemporary Iraq(Vaughan Don, 2021).It contained approximately 30,000 cuneiform tablets arranged by topic. Many of the works were archival documents and scholarly texts, but there were also works of literature, including the ancient Epic of Gilgamesh. Like many bibliophiles, Ashurbanipal was very protective of his library. An inscription in one of the texts warns that potential thieves would face the wrath of the gods.
Great civilization that followed built libraries, they were repositories of knowledge. Some libraries were so large and comprehensive that their legend lives on today. The Alexandria library in Egypt, for example, is believed to have700,000 documents from Greece, Persia, Egypt, India, and other regions. It was so large that it had a branch facility at the nearby temple of Serapis. The world-famous Bayt al-Ḥikmah (House of Wisdom) in Baghdad, established in 830 CE, was another “super library” famous for a huge collection, and the 10th-century library of Caliph al-Ḥakam in Cordova, Spain, boasted more than 400,000 books. Rome and Athens also boasted expansive libraries, as did cultures in other parts of the world, such as China and the Mayan and Aztec civilizations of Central America.
Previous literature shows ‘The goal of ancient libraries was simple: to collect knowledge, learn from it, and use it to make life better’.Ancient libraries used many things to save their knowledge mostly mentioned resources were ‘skin of calf, goat, stones, leaves and most usable thing was “clay tablets’.
Clay Tablets Mesopotamia 2400 BC
We know everything changes with time, and it’s alsoincluding the function of libraries. Before the invention of technology library invited users. But, as the influence of the Internet grew in the 1990s and 2000s, many communities would no longer be a need for libraries to visit physically,everything you could possibly want to know or learn would be just in users’ e-tablets.
Digital libraries are the digital face of traditional libraries that include both digital collections and traditional, fixed media collections. So, they encompass both electronic and paper materials. Digital libraries will also include digital materials that exist outside the physical and administrative bounds of any one digital library. Digital library work, will have to be revised and enhanced to accommodate the differences between new digital media and traditional fixed media. These libraries ideally provide a coherent view of all of the information contained within a library, no matter its form or format. Based on the users’ demand libraries provides the services in electronic formats (e-tablets).
Now the libraries around the world have been working on thischallenge (paradigm shift) for several years. They have created many digital library initiatives and projects, and have formed various national schemes for jointly exploring key issues. Librarians have discovered that, with a few exceptions, making a business case for digitization and investments in digital technology is more difficult than first envisioned, especially given the technical and legal constraints that must first be overcome. As with most other technical developments in libraries over the years, libraries will have to move forward in small, manageable, evolutionary steps, rather than in rapid revolutionary manner.
Changing Scenario: Stone Age to Digital Age (Fakhra Khlaid) Read More »
Fakhra Khalid
Role of Library Professionals in Legal Education.
(Legal Education witha Difference)
‘Library Professional is not a teacher of books; he/she is a teacher of knowledge’
Libraries are considered as Brain of every academic institution. Libraries play a vital role to achievethe goals of every degree awarding institution. Library is not a building loaded with books, it is a repository and source of information and ideas, a place for learning and examination, and for the generation of thought and the creation of new knowledge. Academic libraries have the potential to bridge the gap between the ‘information poor’ and the ‘information rich’ by ensuring the users from all educational sectors and provide the easy access of knowledge that they need. Importance of libraries cannot be neglected in the field of law. The law has always been information based and research demanding field it requires the brain-storming of the future lawyers. Law libraries are reflected as specialized libraries or legal research centers, which deal with special and differentlaws of information research sources, contain specifiedlegal materials and serve classifiedusers with narrow range of interests and with broader needs of interests.
As Danner, Estes, & Meadows, (2009) highlights the importance of law library,
“The primary mission of the law educational library is to meet the information needs of the faculty and students of the institution to support it and educating future lawyers, law libraries are the major producers of scholarly literature in law, provide the resources and support needed for research and publication.”
The field of library and information science play an essential role in legal education system. The ultimate goal of this field is to satisfy their users, depending on the legal education satisfied library professionalscheck, select, gain up to date knowledge in the field. Then distribute itthrough law library or law e-library, mostly current information available in book, brochures, circular, magazines, journals and newspaper etc.
The law library professionals play anexclusive and central role to providing the right information to the right users at the right time for the legal process and for the social justice.Even though the basic education and the essential experiences of law library professionals are similar to the other types of library professionals, but there are sufficient differences in their missions and responsibilitieswhich makes them unique and special.The collections of law libraries are relevant to the specific research needs and thrusts of the institution. Depending on their areas of interest, library professionals acquire materials at the national and international research fronts of their disciplines. They modeling the quality of the legal education system at all levels by the virtue of their unique library products and services.
Library professionals are the goldenpart in legal education process from the very beginning; they were highly participated in legal education,saved the timeand provide the bestlibrary services(online reference service, selective dissemination of information current awareness service)and legal sources to their users.The ideal law library professional is completely knowledgeable about every term of the legal studies. He/she is the personofall the necessary character traits, attitudes, and skills which makes him effective legal information professional.Law Judges, researchers, practitioners, and professors and the students have no much time to find out the relevant piece of information from the library, which are spread over vast variety of sources and only choice is to relay upon the library professional and his professional skills enhanced the capability of law library user to arrive at proper book place in the library. (Right book at the right place).
“Providing legal education is the motto of every law library professional”. Law library professionals have unique combination of professional skills, because documents related to legal matters always require special skills to manage; especially moot court practices, court judgments, legislative enactments, constitutional laws, contract acts, company’sordinances, administrative rules and regulations. They perform their role by bridging the gap between the growing needs of the law users in an information society and developing the abilities of the users to access, evaluate and use of legal information they need. Of course, the role of library professionals in legal education is quite different and significant from other librarians.
We live in a knowledge driven society, where the information needsand demandof every library patron is becoming increasingly complex and difficult, especially law library users find something which is very unique and different becausethey are responsible to providing justice in our society.So, library is the place where “The books are for use” (said by S.R.Ranganathan in his 5 laws of Library and Information Science), where user found every answer of difficult question, library professionals provide them vital legal informationfrom the law library materials. Law library patronsalso use the other library services like book loan service, re-issued services, reserved material service,internet service, online law-site and legal databases service and library-licensed electronic resources as well.
Modern library professionals have a lot of responsibilities for the selection, acquisition,storage, managing and distributing the accurate and precise information source (printed or electronic) of legal relevance in suitable and immediately ways, which is suited to the nature of the legal research of their users/patrons.Library professionals feel pleasure when their library patrons frequently use library services and empty the book shelves.
As the father of Library and Information Sciences S.R. Ranganathan said,
Library professional’s first priority is to enhance the preservation and access of the legal education that is at the core of the legal profession and a core function of every law library. Library professionals support legal researchers to reach at early conclusion stage in his/her research work. They survey, understand, and are sensitive to the search behaviors and requirements of legal researchers in order to help them avoid wasted research time and effort. In doing this, they can play a vital role in the management of Justice. That’s why library professionals are called the ‘teacher of teachers.
Before the advent of ICT, libraries housed printed materials. The 21st century libraries have witnessed a tremendous turnaround in information generation and retrieval. Now the library professionals no longer hold only printed materials but also hold the combination of both printed and electronic materials. The world has truly become a global village as a result of the internet availability our society also moved into digital world, where the numerous legal databases, law sites, e-libraries (e-library Sargodha) and digital libraries(HEC digital library) are created and made available in online form for the subscribed libraries. Digitization makes library professionalsmore critical and fundamental when there is information overload in print form and uploaded into the Internet as well. Library professionals always amend their roles and adapt new technology changes (from Stone Age to digital age).They have accepted the paradigm shift from clay tablets to e. tablets.
Digital revolution has touched every aspect of law librarianship. Library professionals moved from the card catalogues to online public access catalogue (OPAC). Many of the law materials now available in machine readable form (MARC). Digital technology has affected the way we select, order, and process legal materials.The need of a library professional is a must not only for getting books from the library but to acquire the actual information from vast selection of information sources. Advocates in any academic and research institute as well as corporate professionals need to spend their time in getting relevant information. A library professional here needs to work with them as a co-worker and help them in getting relevant information when required.
Library professionals conduct different training and resource guide sessions, workshops, seminars, conferences (both national and international levels),orientation lecturesand book awareness programs/walk for the students to use and how to use the library sources which are readily available in the law library. They organized many book fairs/book exhibitions to create awareness about the importance of books in the user’s mind. In this way library professionals expresses the reputation of libraries and promote the newly product (books, journals, and magazine) and service of their libraries.
Law being an information rich subject day-by-day, it grows rapidly, it is very difficult for lawyers to practice without using effective, efficient and up-to-date law resources.
Lawyers/students swim in the law libraries and upswing with legal solutions with the cooperation of library professionals. Their specialized knowledge, experiences, skills and library services positively affect in the assets, lives, and liberty of their ultimate end users. In the near future libraries will have to cooperate much more successfully than in the past if library professionals hope to meet more research needs of their patrons, preserve print law books, and ensure that their digital collections are not lost.
In other words, law libraries have functioned as magical stick for all troubled and tussled.
Role of Library Professionals in Legal Education. (Fakhra Khalid) Read More »