Prof Ahmad Naeem

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ

ایک کتابی کیڑے دوست نے میری کاہلی اور سستی کو کانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور مشورہ دیا کہ اگر ضخیم کتابیں پڑھنا مشکل ہے تو چھوٹی کہانیاں ہی پڑھ لیا کرو۔ اس نے زور دیا کہ میں گلے کا ہار، آخری پتا، میگی کا تحفہ، رسی کا ٹکڑا اور ایک گھنٹے کی کہانی جیسے چند افسانے ضرور پڑھوں۔

دوست نے بتایا تھا کہ Story of an hour کا شمار دنیا کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جو ہماری زنگ آلود سوچ پہ چوٹ کرتی ہیں اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ کم بخت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ میں نے عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی آج بھی دل و دماغ اس کے سحر میں جکڑا ہے۔ دو اڑھائی صفحوں کی اس چھوٹی سی کہانی کے تقریبا ایک ہزار لفظوں میں ہزارہا صدیوں کے دکھ عیاں ہیں اور مجبوریوں کی لمبی داستاں کو سمیٹا گیا ہے۔

یہ مسز میلرڈ کی کہانی ہے جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ خبر ہے کہ اس کا خاوند ریل گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ مسز میلرڈ کی بہن اور رچرڈ (خاوند کا دوست) اسے افسوسناک خبر سنانے میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے فقروں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ خاوند کی موت کا سنتے ہی مسز میلرڈ رونا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دوسری منزل پہ واقع کمرے میں اکیلی چلی جاتی ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کرکھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے۔ باہر فطرت کے خوبصورت نظارے اور خوشنما زندگی نظر آتی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک غیر متوقع اور عجیب خوشی محسوس کرتی ہے۔ خدا سے اپنی لمبی زندگی پانے کی دعا مانگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند کی موت کا افسوس بھی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ آخری رسومات پہ پھوٹ پھوٹ کے روۓ گی۔ مسز میلرڈ کی بہن اوپر آتی ہے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہتی ہے۔ مسز میلرڈ بہن کے ساتھ نیچے چلی جاتی ہے۔

گھر کا مرکزی دروازہ کھلتا ہے اور اس کا خاوند مسٹر میلرڈ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاوند کر زندہ دیکھ کر مسز میلرڈ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اچانک خوشی موت کا سبب بنی۔

امریکی مصنفہ کیٹ چاپن (Kate Chopin) اس کہانی کی خالق ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی 1994 میں لکھی جو پہلی بار Dream of an Hour کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ کیٹ چاپن نے اپنے ناول The Awakening اور باقی کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی عورتوں کی مجبوریوں، استحصال اور حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈرن فیمنزم کی جڑیں Story of an Hour کے لفظوں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔

Kate Chopin

خاوند کی موت کے بعد مسز میلرڈ آزادی اور من چاہی زندگی کے سپنے کو پورا ہوتی دیکھتی ہے۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی اس کے آزاد و روشن مستقبل اور خوبصورت زندگی کی علامت ہے۔ کھڑکی سے نظر آنے والے ہوا کے دوش گھومتے روئی کے گالوں سے بادل، درختوں کی چوٹیاں جن سے بہار کے رنگ سبز پتوں کی صورت پھوٹے ہیں، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا گہرا نیلا آسمان، دور سے آتی کسی گانے کی مدھر لے، گلی سے اٹھتی زندگی سے بھرپور آوازیں، ہوا میں ملی بارش کی مہک اور موسیقی سے بھری چڑیوں کی چہچہاہٹ سب اس دل لبھانے والے جیون کا استعارہ ہیں جو خاوند کے ہوتے اسے نصیب نہ ہوا۔

یہ ہمارے معاشرے کی المناک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے مرد نے یہ کھڑکی بند کر رکھی ہے۔ خاوند کے جیتے جی بیوی ایسی زندگی نہیں جی سکتی۔ خاوند کی موت پہ مسز میلرڈ بار بار سرگوشی کرتی ہے۔ ‘ آزاد، جسم اور روح آزاد ہو گئے‘

کیٹ چاپن کے نزدیک ایک عورت کے لیے خاوند سے چھٹکارا پانا اہم نہیں بلکہ ایسی زندگی کی اہمیت ہے جس کی وہ خود مالک ہو۔ کیٹ چاپن مسز میلرڈ کی خوشی کی وجہ لکھتی ہیں۔

 آنے والے برسوں میں وہ کسی دوسرے کے لیے نہیں جیے گی، اپنی زندگی اپنے لیے جیۓ گی۔ اس کی مرضی کو کسی دوسرے شخص کی مرضی توڑ مروڑ نہیں سکے گی۔‘

انیسویں صدی کے آخر میں جب یہ کہانی لکھی گئی تو امریکی معاشرے میں اس کو خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ کہانی صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے وقت سے پہلے لکھی گئی۔ ہمارے ملک میں شاید ایسے خیالات کو آج بھی بہت سارے لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔

 

میلرڈ خاوند کے بعد ایک نئی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے۔ یہ خواب اتنا دلکش ہے کہ وہ دعا مانگتی ہے کہ وہ لمبی زندگی جیے اور آزادی کے احساس کا لطف زیادہ عرصہ اٹھا سکے۔ ایسا خواب اور ایسی دعا پہلی بار اس کی زندگی میں آئے تھے۔ ہم کہانی میں دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کا یہ خواب تعبیر کی منزل نہیں پاتا نہ ہی اس کی دعا شرف قبولیت حاصل کر پاتی ہے۔ بلکہ ایک گھنٹے کے اندر ہی سہانی زندگی جینے کا خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق مسز میلرڈ کی موت خاوند کو زندہ دیکھنے کی اچانک خوشی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن کہانی پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت خاوند کو زندہ دیکھنے کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاوند ہی بیوی کی خوشی کی زندگی جینے میں رکاوٹ ہے۔

ڈاکٹرز کا موت کی غلط اور متضاد وجہ کی تشخیص معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے کہ ہم عورت سے متعلقہ معاملات کو غلط رنگ دیتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ شاید خواتین کے دکھوں کے پیچھے کارفرما اصل وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مسز میلرڈ کی کہانی میں کیٹ چاپن کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی پڑتا ہے۔ کیٹ چاپن کے خاوند کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کی ماں اور گھریلو عورت کو روزی روٹی کمانے کے لیے ایک آرٹسٹ اور قلم کار کا رول اپنانا پڑا تھا۔ کیٹ چاپن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ کامیاب لکھاری بن گئیں۔ یہ کہانی بھی عورت کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا پیغام دیتی ہے۔

اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو دیکھنے میں خوش ذائقہ نظر آتا ہے اور چکھنے پہ کڑوا ثابت ہوتا ہے۔ جو بھی کھاۓ، وہ پچھتاۓ۔ شادی شدہ عورت کے پاؤں میں پڑی سخت مجبوریوں، بے شمار ذمہ داریوں اور بے جا پابندیوں کی زنجیریں جان لیوا ہیں۔ شادی کے بعد مرد باہر کام کرتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ لہذا گھر سے باہر کے تمام مواقع عورت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ عورت نے آگے بڑھنے، دنیا میں اپنا مقام بنانے، روشن مستقبل کے حصول اور زندگی کو انجواۓ کرنے کے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چار دیواری ہی میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ مسز میلرڈ بیوی کے ایسے ہی پراسرار رول میں پھنسی نظر آتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے کڑے مطالبات ہیں جن کے پاٹوں میں عورت پسی چلی جاتی ہے۔

Story of an hour میں رونا دھونا کافی ملتا ہے۔ کہانی کی ہیرؤئن خاوند کی موت پہ روتی ہے۔ جب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تب بھی ڈسکارے بھرتی رہتی ہے۔ پھر جب اپنے خیالوں میں خاوند کے جنازے میں شریک ہے پھر بھی رونے کا ذکر ملتا ہے۔ خیالوں ہی میں خاوند کو دفنانے کے بعد رونے کا ذکر نہیں آتا۔ اس کا رونا دھونا تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک خاوند اس دنیا میں موجود ہے۔

مسز میلرڈ دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور یہ عارضہ بھی خاوند کی عطا معلوم ہوتا ہے۔ اور کہانی کے آخر پر خاوند ہی جان لیوا صدمے کی وجہ بنتا ہے۔ یہی عارضہ اس کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے ہی ناسور جو عورت کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، وہ معاشرے کی عطا ہیں۔

یہ کہانی امریکی مصنف Charlotte Perkins Gilman کی کہانی The Yellow Wallpaper سے بھی ملتی جلتی نظر آتی ہے جس میں ایک عورت اس قید اور پابندیوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے شوہر نے اس پہ مسلط کی ہیں۔

یہ کہانی ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی پکار ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ موت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ موت سے پہلے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ خواتین کے لیے اس کہانی میں نصیحت ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ کیٹ چاپن اپنے ناول The Awakening میں لکھتی ہیں۔

“مجھے ہمیشہ ان خواتین پہ افسوس ہوتا ہے جو چلنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سارے زندگی کے چھوٹے چھوٹے نایاب نظاروں سے محروم رہتی ہیں۔”

کیٹ چاپن کی اس چھوٹی سی کہانی میں کتنی بڑی بڑی باتیں کی گئی ہیں۔

 

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »

کالے جسموں کی ریاضت (پروفیسر احمد نعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

کالے جسموں کی ریاضت

فیس بک پہ کتاب کا سر ورق شاید پبلشرز نے شئیر کیا تھا۔ کتاب کا نام اتنا دلکش تھا کہ نظریں ایک دم سے اٹک گئیں۔ ’کالے جسموں کی ریاضت‘۔ کیا خوبصورت عنوان ہے۔ کالے جسموں کی صدیوں پہ محیط ریاضت کا درد سرورق سے چھلک رہا تھا۔ ترجمہ کرنے والوں کے نام درج تھے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور جاوید دانش۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے کئی کالم ’ہم سب‘ پہ میں پڑھ چکا تھا۔ ان کی انسان دوستی، محبت، رواداری، مثبت سوچ، حق گوئی، انصاف پسندی اور زندگی کو جی بھر کے جی لینے کی آرزو جیسی خوبیوں سے بے حد متاثر ہوا۔ وہ ماہر نفسیات، دانشور، افسانہ نگار، شاعر، کالم نگار اور محقق ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر انسانوں سے محبت کرنے والے۔ یقیناً ان کا انتخاب خوبصورت ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سوچ کر فوری واٹس ایپ نمبر پہ کتاب منگوانے کا آرڈر دے دیا اور دو تین دنوں میں کتاب کراچی سے پاکپتن آ پہنچی۔ وہ بھی صرف 430 روپے بمعہ ڈاک خرچ میں۔

افریقی ادب میں وہ سارے مسائل گندھے نظر آتے ہیں جن کا سامنا سیاہ فام نسل کے لوگ کرتے آئے ہیں۔ اس کتاب میں بھی کہیں غلامی کی بے رحم زنجیروں میں جکڑے کالے جسم نظر آتے ہیں جو آزادی اور برابری سے زندہ رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔ کہیں ان زخموں سے چور جسموں پہ نسلی امتیاز کے کوڑے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں غربت اور بھوک کی آندھیاں چنگھاڑ رہی ہیں تو کہیں قحط، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری، احساس محرومی اور ظلم کے گہرے سائے چھائے ہیں۔

سیاہ فام ادیبوں کے ادب پاروں میں آزادی کی تمنا سانس لیتی نظر آتی ہے۔ نسلی امتیاز کے خلاف پر زور احتجاج ہے جو آسمان کا سینہ بھی چاک کر دیتا ہے۔ انصاف اور احترام آدمیت کی التجا ہے جو مردہ دلوں پہ جمی برف کی دبیز تہہ پگھلا دیتی ہے۔ روشن صبح کے لیے جدوجہد ہے جو گھور اندھیری رات کو بھی شان سے جی لینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ ادب پارے ایک آئینہ ہیں جس میں گورے لوگ اپنا چہرہ دیکھ کے پانی پانی ہو جائیں۔

افریقی ادب کے یہ شہ پارے پڑھنے سے قاری کی سوچ کو نئی وسعتیں عطا ہوتی ہیں۔ کالے جسموں کی طویل اور سخت ریاضت سے اٹھتی درد کی ٹیس کو وہ محسوس کرتا ہے۔ آزادی اور انصاف کی قدرو قیمت سے شناسائی ملتی ہے۔ زندگی کو بہتر طریقے سے جینے کا درس ملتا ہے۔ ژاں پال سارتر کے نزدیک ’انسان کو سمجھنے کے لیے انسان کی تباہی کی کہانی اور ظلم کے قصے کو سمجھنا بہت ضروری ہے‘۔ لہذا کتاب میں موجود ظلم کی داستانیں ہمیں انسان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر کی کتاب ’وٹ از لٹریچر‘ کے باب ’بلیک آرفیس‘ کا اردو ترجمہ ’دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس میں خوبصورت خیالات ہیں جن کی ایک چھوٹی سی جھلک دیکھیے۔

’سفید فام لوگون نے ہر چیز کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا۔ اپنی جلد کی سفیدی کو ایک خاص رنگ دیا۔ انہوں نے سفیدی کو دن، حسن، سچائی، نیکی اور ایسی روشنی سمجھا جو زندگی کی تاریکیوں کو اجاگر کر دیتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ کالے لوگ اعتماد سے کھڑے ہو گئے ہیں اور کالی روشنی سے ماحول کو منور کر رہے ہیں۔ ‘

’وہ (سیاہ فام ادیب) سیاہ رات کو صرف گناہ اور محرومی کی علامت ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسے جدوجہد کی علامت بھی بناتے ہیں۔ ایسی جدوجہد جس کی کوکھ سے صبح طلوع ہو گی۔ ‘

سارتر مزید لکھتا ہے کہ ’سیاہ فام شاعر اپنی نظموں کی فضا میں الفاظ ایسے اچھالتا ہے جیسے آتش فشاں پہاڑ کے دہانے سے پتھر نکلتے ہیں۔ اور وہ الفاظ کے پتھر یورپ اور کلونیلزم کی عمارت کو مسمار کرتے رہتے ہیں‘۔

’وہ ایک ایسے مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جہاں انسان انسانیت کے ناطے سے پہچانے جائیں گے نہ کہ جلد کی رنگت کی وجہ سے‘۔

مضمون کے آخر پر سارتر سیاہ فام لوگوں کی حوصلہ افزائی کچھ یوں کرتا ہے
’اے سیاہ فام لوگو
اپنی جدوجہد تیز کر دو
اتنا زور سے چیخو کہ
دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘

اس سے قبل میں نے مشہور ناول ’تھنگز فال اپادٹ‘ پڑھا ہوا تھا جو نائجیریا کے سیاہ فام ادیب چنوا ایچی بی کی شاہکار تخلیق ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی شہرہ آفاق تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ کا متن بھی پڑھا ہوا تھا۔ اور اب ’کالے جسمون کی ریاضت‘ میں افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ کے نامور سیاہ فام ادیبوں کے فن پارے پڑھنے کا موقع ملا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب سیاہ فام ادیب اتنے زور سے چیخے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سارتر کی روح کو خوشی ملی ہو گی۔

افریقی شعراء کی خوبصورت لطیف خیالات سے لبریز  نظمیں ہیں جو ڈاکٹر خالد سہیل نے ترجمہ کی ہیں۔ برناڈ ڈاڈی کا تعلق کوٹے ڈی آئیوری سے ہے جو مشہور شاعر،   ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انہوں نے فرانسیسی استعماریت کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی باکمال اور عالمی شہرت یافتہ نظم ’اے خدا تیرا شکر ہے‘ بھی کتاب کا حصہ ہے۔

  ’اے خدا تیرا شکر ہے
کہ تو نے مجھے کالا پیدا کیا
میں ساری دنیا کے دکھ اور غم اپنے کندھوں پر لیے پھرتا ہوں
میں کالی رات میں اتنے قہقہے لگاتا ہوں
کہ وہ صبح کا روپ اختیار کر لیتی ہے‘

نائیودا اوساہون کی ایک نہایت جاندار نظم ’ایک سادہ کالا آدمی‘ ہے جس کے تیز دھار الفاظ قاری کے دل میں بہت گہرے اترتے چلے جاتے ہیں۔ سیاہ فام درد کی جس چکی میں پستے ہیں وہ درد بھی عیاں ہے۔   نظم کا ٹکڑا پڑھیے۔

’اگر
ایک چور
تمہاری ماں، بیوی اور بیٹی سے زنا بالجبر کرے
تمہیں بے دردی سے مارے
اور تمہارے مال و دولت سمیت فرار ہو جائے
اور
برسوں بعد
جب پولیس اسے نہ پکڑ پائی ہو اور قانون نے اسے سزا نہ دی ہو
اور وہ تمہیں پارٹی میں مل جائے
تو تم کیا کرو گے؟
کیا اسے معاف کر دو گے اور بھول جاؤ گے؟
اگر ایسا ہے تو تم ایک سادہ کالے آدمی ہو‘

جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور سیاہ فاموں کی آزادی کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے نیلسن منڈیلا کے چند خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

نائجیریا کے نوبل انعام یافتہ ادیب وول سونیکا کا ڈرامہ ’دلدل کے باسی‘ میں جنوبی نائجیریا کے پسماندہ دیہاتی زندگی کے کردار سخت مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک نا امیدی سی چھائی ہے۔ کوئی ایسا مشکل کشا بھی نہیں جو مصائب بھری زندگی میں مدد کر سکے۔ کوئی قحط اور پانی کی کمی کے مارے ہیں تو کوئی پانی کی زیادتی سے تباہی کی دلدل میں ہانپ رہے ہیں۔

’فقیر:  ساری محنت ٹڈی دل کے ایک حملے سے صاف ہو گئی۔ پھر میں گھر سے نکلا اور لوگوں کو آواز دینے لگا کہ کوئی مجھے دریا کا راستہ بتا دے۔ ایک راہگیر نے پوچھا کون سا دریا۔ میں نے کہا کسی بھی دریا یا ندی کی طرف میرا منہ کر دو۔ مجھے پانی کے قریب رہنا ہے۔ کیوں کہ اب میں سوکھے سے بیزار ہو چکا ہوں۔ ‘

  ’ماکوری:  کبھی کبھی دیوتاؤں سے بھی بانٹنے میں بھول ہو ہی جاتی ہے۔ وہ ہر ایک کو ایک طرح سے نہیں بخشتے۔ ‘
ارنی ڈنگو کی نظم ’ایک خیال‘ ایک اچھوتا خیال پیش کرتی ہے۔
’ہم سیاہ فام لوگوں کی خدمات
چاند کے تاریک پہلو کی طرح ہیں
جو موجود تو ہے
لیکن
اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ‘

امریکی مصنف اورسماجی کارکن مایا انجیلو کا ایک مضمون ’ڈینٹسٹ اور ماما‘ ایک درد بھری داستان بیان کرتا ہے۔ جس میں مایا کی نانی اس کا دانت نکلوانے گورے ڈینٹسٹ کے پاس لے جاتی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ وہ ایک کتے کے منہ میں ہاتھ ڈال لے گا لیکن ایک نگر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ ایک کم عمر بچی اپنی نانی اور ڈینٹسٹ کی نسلی کشمکش کو کیسے دیکھتی ہے یہ دلچسپی کا ساماں ہے۔ بچی تخیل میں دیکھتی ہے کہ اس کی نانی نےگورے ڈینٹسٹ اور گوری نرس کی خوب دھلائی کی ہے اور ان پہ حاوی آ گئی ہے۔ یہ ایک سیاہ فام بچی کا خواب ہے حقیقت نہیں۔

یہ مضمون مایا انجیلو کی سوانح عمری کی پہلی کتاب ’I know why the caged bird sings‘ سے لیا گیا ہے۔ اس میں مایا نے تین سال سے سولہ سال تک کے اپنے حالات قلم بند کیے ہیں۔

اس میں ’مایا‘ ہر سیاہ فام امریکی لڑکی کی علامت بن جاتی ہے۔ قیدی پرندہ بھی سیاہ فام لوگوں کی علامت ہے جو گوروں کے بنائے قانون کے پنجرے میں پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں۔   مایا انجیلو نے کتاب کا ٹائٹل سیاہ فام امریکی شاعر پال لارنس ڈنباز کی نظم سے لیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’میں جانتا ہوں قیدی پرندہ کیوں گاتا ہے۔ یہ خوشی کا گیت نہیں گاتا ہے۔ بلکہ یہ زخمی دل کی پکار ہے جو وہ آسمان کی طرف اُچھالتا ہے‘۔

زہرا ہرسٹن امریکی سیاہ فام ادیب تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتداء میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی۔ ایک دفعہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے پکڑی گئیں تو اس نے جج کے سامنے یہ توجیہہ پیش کی  ’میں نے سفید فام لوگوں کو سبز بتی پر سڑک پار کرتے دیکھا تو سمجھی کہ سرخ بتی کالوں کے لئے ہے‘ زہرا ہرسٹن کا ایک خوبصورت مضمون ’سیاہ فام ہونے کا احساس‘ کتاب کی زینت بنا ہے۔   زہرا ہرسٹن لکھتی ہیں۔

”میں نیگروز کے اس طبقہ فکر کی ممبر نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے انہیں کالا پیدا کر کے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ میں نے اپنی بے ترتیب زندگی میں جلد ہی یہ معلوم کر لیا تھا کہ اس دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔   چاہے اس کی جلد کالی ہو یا گوری“۔

”بعض اوقات مجھے احساس ہوتا ہے کہ لوگ میرے کالے ہونے کی وجہ سے مجھ سے دور رہتے ہیں۔ مجھے اس وقت غصہ نہیں آتا۔ حیرانگی ضرور ہوتی ہے کہ وہ لوگ کیوں کر میری دلچسپ قربت سے اپنے آپ کو محروم کرتے ہیں۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے“۔

لوک کہانی ’لوگ جو اڑ سکتے تھے‘ ایسی کتھا ہے جو دل و دماغ کو ہلا دیتی ہے۔ افریقی لوگ غلامی سے ہر قیمت آزادی چاہتے ہیں۔ کچھ نے گورے آقاؤں کی حکم عدولی کی اور مارے گئے۔ کچھ فرار ہو کر سمندر میں گھس گئے تا کہ افریقہ واپس جا سکیں۔ جانوں سے تو گئے مگر غلامی سے آزاد ہو گئے۔ کچھ منتر پڑھ کر اڑ جاتے ہیں اور واپس افریقہ اپنے آبائی علاقوں میں جا اترتے ہیں۔   لوگ بھلا کبھی اڑے ہیں۔   اُن کے تو پنکھ ہی نہیں ہوتے۔   ہاں مگر کہانی میں ضرور اڑ سکتے ہیں۔ کہانی میں تو سیاہ فام غلامی میں پسے لوگوں کی آزادی کی آرزو صاف نظر آتی ہے۔ کاش وہ قسمت کے مارے سچ میں اُڑ سکتے۔

مارٹن لوتھر کنگ کی عظیم جدوجہد کا مختصر تعارف بھی ہے اور ان کی جاندار تقریر ’میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘ کا کچھ حصہ بھی۔   یہ تقریر 28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں دو لاکھ پچاس ہزار کے مجمعے میں کی گئی۔

’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن جارجیا کے سُرخ پہاڑوں پر آقاؤں اور غلاموں کے بیٹے ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے‘
’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن میرے چاروں بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں اُن کا کردار اُن کی جلد کے رنگ سے زیادہ اہم ہو گا‘

’کالے جسموں کی ریاضت‘ افریقی ادب کا خوبصورت گُلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول ہیں۔   ان پھولوں سے دل لُبھانے والی مہک بھی ہے اور درد اور دُکھوں کے قطرے بھی ہیں جو لہو کی طرح ٹپک رہے ہیں۔

کتاب کے حوالے سے ایک شکوہ بھی ہے کہ اس کے صفحات کم ہیں۔ ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے اور پھر افریقی ادیبوں کا تعارف بھی ہونا چاہئیے تاکہ ان سے بہتر شناسائی ہو سکے۔   کچھ نظمیں ایسی بھی درج ہیں جن پہ اُن کے خالقوں کے نام تک درج نہیں۔ قاری کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کسی سیاہ فام ادیب کی تخلیق کردہ ہیں یا پھر ان کے خالق ڈاکٹر خالد سہیل خود ہیں۔

کتاب کا انتساب پڑھ کے دل خوش ہو گیا۔   ارے واہ۔   اس سے بہتر انتساب نہیں ہو سکتا۔
کالے قلمکاروں کے سنہرے افکار
اور
روشن مستقبل کے نام۔

کالے جسموں کی ریاضت (پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »

کوک فریدا کوک (پروفیسر احمد ںعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

کوک فریدا کوک

صدیوں پہلے پاکپتن اجودھن ہوا کرتا تھا۔ تیرہویں صدی میں صوفی بزرگ بابا فریدالدین گنج شکر اجودھن آئے تو اسی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ستلج کنارے آباد اس بستی پہ بابا فرید کا ایسا رنگ چڑھا کہ اس نے اجودھن نام کی پرانی اوڑھنی اتار پھینکی اور ’پاک پتن‘ نام کا چولا پہن لیا۔ تب سے اب تک اس چھوٹے شہر کی بڑی پہچان یہی ہے کہ یہاں سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ بابا فریدالدین کا آستانہ ہے۔ ملک کے طول و عرض سے ہزارہا زائرین پورا سال پاک پتن درگاہ بابا فرید گنج شکر پہ حاضری دینے آتے رہتے ہیں۔ ہر سال پچیس ذوالحج سے دس محرم تک آپ کے عرس کی تقریبات پاک پتن میں منائی جاتی ہیں۔ پانچ سے دس محرم عرس اپنے عروج پہ ہوتا ہے۔ انڈین پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں بھی بابا فرید کی یاد میں ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتے عرس منایا جاتا ہے۔ ہندو، سکھ اور مسلمان ٹلہ بابا فرید جی پہ آتے ہیں، دیے جلاتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ پہلے وہ شہر بھی موکلہار کہلاتا تھا۔ بابا فرید الدین وہاں کچھ دن ٹھہرے تو وہ شہر ’فرید کوٹ‘ ہو گیا۔

پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کا سات سو چھہترواں عرس منایا جا رہا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے زائرین امڈ آئے ہیں۔ شہر کی گلیوں، سڑکوں اور حویلیوں میں آدم ہی آدم دکھائی پڑتا ہے۔ پاک پتن پہلے سا شہر نہیں رہا گویا بھیس بدل لیا ہو اور اصل چہرہ چھپا لیا ہو۔ گاڑیوں کا رش، شور مچاتے انجن، دھوئیں کے بادل اور ہارن کی پیں پیں پاں پاں۔ ریلوے لائن کے ساتھ، سڑکوں کے کنارے اور خالی جگہوں پہ گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ ہم پاکپتن والوں نے بھی خالی جگہوں کو پارکنگ لاٹ بنا دیا ہے۔ پیسے وصولتے ہیں تب گاڑی کھڑی کرنے دیتے ہیں۔ دوسرے شہروں سے آئے زائرین نے مکان کرائے پہ لے لیے ہیں۔ ہم عرس کے دنوں میں کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ چند دن کا کرایہ ہزاروں روپے بنا لیتے ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار وسل بجاتے رہتے ہیں۔ خوب رونق ہے۔ جا بجا دیگیں پک رہی ہیں۔ لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔ حویلیوں، ڈیروں اور خانقاہوں میں قوالی کی محفلیں سجی ہیں۔ ہر قوال کو سامعین میسر ہیں جو قوالوں پہ نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ نوٹ اڑتے ہیں تو فنکاروں کے رگ و پے میں جوش بھر جاتا ہے۔ طبلے کی تھاپ، ہارمونیم سے نکلتے سر، ہمنواؤں کی تالیاں، آنکھ موندے جھومتے سامعین اور دھمال ڈالتے ملنگ۔ محفل سما پہ جوبن آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عالمی شہرت یافتہ فن قوالی کے بیج پاک پتن درگاہ بابا فریدالدین پہ پروان چڑھے۔ پاکپتن نے کئی نامور قوال گھرانے پیدا کیے۔ نصرت فتح علی خان، بدر میانداد، صابری برادران سمیت قوالی کے بڑے نام پاک پتن کو اپنی روحانی درسگاہ مانتے اور یہاں پرفارم کرنا سعادت گردانتے۔

عرس شروع ہوتے ہی شہر میں کاروبار انگڑائی لے کے اٹھ بیٹھتا ہے اور کاروباری لوگ یوں جاگ جاتے ہیں کہ دن رات سوتے ہی نہیں۔ جگہ جگہ نئے اسٹالز اگ آتے ہیں۔ دکانیں برقی قمقموں سے سجائی جاتی ہیں۔ ہر سو چائے کے کھوکھے کھلے ہیں۔ برفی، چم چم، توشہ اور گلاب جامن کی ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔ دہی بھلے، برگر، آلو چاٹ، سموسے پکوڑے، مکئی کے بھٹے، دال چاول، لڈو پیٹھیاں غرض کہ سب کھانے کو دستیاب ہے۔ بے روزگار نوجوانوں نے عرس کے دنوں مکھانے اور شکر کی ریڑھیاں لگا لی ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران سب آباد ہو چکے ہیں۔ شام ہوتے ہی جو بازار اونگھنے لگتے تھے اب رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔
اٹھ فریدا ستیا جھاڑو دے مسیت
توں ستا رب جاگدا، تیری ڈاہڈے نال پریت (بابا فرید)

ڈھولچی گلیوں بازاروں میں ڈھول بجاتے پھرتے ہیں۔ زائرین جماعتوں کی شکل نذرانہ چڑھانے دربار کی طرف رواں ہیں۔ سرخ، سبز اور نیلے پیلے چولے پہنے ملنگ دھمالیں ڈالتے ہیں۔ لمبے بکھرے بال، ننگے پاؤں، الجھی داڑھیاں، انگلیوں میں رنگ برنگے نگوں کی انگوٹھیاں پہنے، شوخ رنگ کے کپڑے سے کمر کسے، عقاب پروں سے ہاتھ پھیلائے یہ خرقہ پوش ناچتے ہیں۔ یہ کسی اور دنیا کے واسی دکھتے ہیں۔
کالے میڈے کپڑے کالا میڈا ویس
گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہیں درویش (بابا فرید)

انچ محرم کو بہشتی دروازہ کھلتا ہے۔ بابا فرید الدین کے حجرے کے جنوبی دروازے سے لوگ قطار باندھ کے داخل ہوتے جاتے ہیں اور مشرقی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پورا سال یہ دروازہ بند رکھا جاتا ہے۔ پانچ سے دس محرم کھولا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بابا فرید گنج شکر کے مرشد نے فرمایا تھا کہ جو فرید کے در سے گزرے گا امان پائے گا۔ اب ہر سال ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں۔ امان پانے کی تمنا، بہشت کے حصول کی آرزو، بابا فرید سے محبت یا پھر ثقافتی سرگرمی میں حصہ لینے کی خواہش محرک کوئی بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد حق فرید یا فرید کے نعرے بلند کرتی بہشتی دروازے سے گزرتی ہے۔ درگاہ اس فلک شگاف نعرے سے گونجتی رہتی ہے
اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید۔

ریلوے پھاٹک سے دربار تک میل بھر لمبی قطار باندھے لوگ بہشتی دروازہ گزرنے کے لیے عصر سے پہلے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دروازہ رات آٹھ بجے کھولا جاتا ہے۔
بہشتی دروازہ گزرنے والےدو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ اور خاص لوگ۔ خاص لوگوں کے لیے خاص انتظامات ہوتے ہیں۔ ان میں درگاہوں کے گدی نشین، سیاستدان، زمیندار، کاروباری امراء، سرکاری عہدے داران وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ قطار میں کھڑے ہونا ان کی شان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کے لیے ڈی پی او آفس سے وی آئی پی کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ راستہ ہوتا ہے جہاں ان کو روکا نہیں جاتا۔ دھکم پیل نہیں ہوتی۔ امیر آدمی ہوتے ہیں لہذا پولیس کی بڑھکیں اور ڈنڈے ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔ گاڑیوں کے لیے بھی خصوصی پاس جاری ہوتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھیے اور مزے سے بلا روک ٹوک ٹور کے ساتھ جائیے۔ قطار باندھنا تو غریبوں کا شیوہ ہے۔

عام لوگوں کی لمبی قطار لگی ہے۔ ان کے پاس نہ گاڑی نہ وی آئی پی کارڈ۔ نہ کوئی پولیس اہلکار دوست ہے۔ وہ دیہاتوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ سہ پہر سے ہی گرمی میں کھڑے ہیں۔ پولیس اہلکار ڈنڈے لہرا کر ان کو قابو میں رکھتے ہیں۔ پھر بھی گڑ بڑ کریں تو ڈنڈے برسا کر دماغ ٹھکانے رکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے پیسہ نہیں کمایا، گاڑیاں نہیں لیں، اثرو رسوخ والے نہیں اور نہ ہی کسی بڑے باپ کے گھر پیدا ہوئے۔ ارے کچھ بھی نہیں کیا تو پھر ریلوے پھاٹک پہ لگ جاؤ لائن میں۔ چلو شاباش!
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک (روٹی)
جے لبھے نہ چھیواں پنجے ای جاندے مک (بابا فرید)

کئی سال قبل بہشتی دروازے سے گزرتے بھگدڑ مچی تھی اور کئی افراد جان سے گئے۔ سات سال پہلے درگاہ کے مرکزی دروازے پہ بم دھماکہ ہوا تھا جس میں سات جانیں چلی گئیں تھیں۔ پھر بھی لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ موت زندگی کا راستہ روکنے میں ناکام ٹھہری۔ زندگی کا دھارا بہت حوصلہ رکھتا ہے۔ ہر پل بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ بابا فرید سے پریت نبھانے والے پل بھر کے لیے نہیں ٹھٹھکے۔
فریدا ایسا ہو رہو جیسا ککھ مسیت
پیراں تلے لتاڑئیے کدی نہ چھوڈیں پریت (بابا فرید)

عرس پہ پنجاب بھر سے پولیس اہلکار ڈیوٹی پہ آتے ہیں۔ شہر کے سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔ سکولوں میں نفری کی رہائش کابندوبست ہوتا ہے۔ طالب علموں اور اساتذہ کو عرس کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ چھٹیاں جو ملتی ہیں۔ مزے سے میلہ دیکھو۔ تنخواہ بھی وصول پاؤ۔

عرس پہ کبھی لکی ایرانی سرکس لگتا تھا۔ اتنا رش ہوتا تھا کہ ٹکٹ لینے کے لیے تگڑے پہلوان نما شخص کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ وہ بھی جب سب دوستوں کی ٹکٹیں اپنے زور بازو پہ جم غفیر کو چیر کے خرید لاتا تو اس کی قمیض کا گھیرا پھٹ چکا ہوتا یا چاک گریبان لوٹتا۔ موت کا کنواں لگتا تھا جس میں خواجہ سرا ناچتے تھے اور بعد میں کار یا موٹر سائیکل کی خطرناک کرتب دکھائے جاتے تھے۔ بہت سارے لاؤڈ اسپیکرز پہ گانے بج رہے ہوتے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اکھاڑے اور تھیٹر میں لائیو پرفارمنس ہوتی تھی۔ کچی ٹاکی فلمیں چلتی تھیں۔ مختلف کھیل تماشے لگتے تھے۔ طرح طرح کے جھولے ہوتے۔ سب لوگ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو کچھ دیر بھلا کر ہنس لیتے تھے۔ لیکن جب سے دہشت گردی کا مکروہ کھیل شروع ہوا وہ میلہ اجڑ گیا۔ موت کے اس بھیانک کنویں میں زندگی کا سرکس ویراں ہو گیا۔ اب نہ ٹکٹ بکتے ہیں اور نہ گاؤں کے پہلوان میلہ دیکھنے آتے ہیں۔

حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کو پنجابی کا پہلا شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ آپ کے اشلوک سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ آپ کے فلسفے کی چھاپ آٹھ صدیوں کے بعد بھی اتنی گہری ہے کہ آج بھی پاک پتن میں لوگ اپنے بچوں کے نام بابا فرید کی نسبت سے رکھتے ہیں۔ غلام فرید نامی لوگ اس نسبت کا ثبوت ہیں۔ آج بھی شہر میں جا بجا دکانوں، کالج، لائبریری، مساجد، مدرسے، میرج ہال اور فیول پمپ بابا فرید کے نام سے جڑے نظر آتے ہیں۔ شہر کا اکلوتا کالج فریدیہ کالج ہے۔ بابا فرید گنج شکر نے انسان کو اولین ترجیح دی۔ سب انسانوں سے محبت کی۔ کسی بھی شخص کو مذہب، عقیدے یا فرقے کی بنا پر دھتکارا نہیں۔ لوگوں کو محبت اور امن کا درس دیا۔ رواداری اور بھائی چارے کا جو سبق بابا فرید نے پڑھایا اس کا درس آج بھی ان کے آستانے پہ جاری ہے۔ ان کے آستانے پہ تمام مذاہب اور عقائد کے لوگ آتے ہیں۔ آج بھی ان کے آستانے پہ محبت اور امن و آشتی کے اس عالمگیر احساس کا سایہ ہے جو بد قسمتی سے ملک کے گلی بازاروں میں نظر نہیں آتا۔ ان کی درگاہ پہ سنی، شیعہ، وہابی، سکھ، ہندو، مسلمان کی تفریق نہیں ہوتی۔ معاشرے کی اتنی بڑی خدمت اور کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔

کوک فریدا کوک توں جیوں راکھا جوار
جب لگ ٹانڈہ نہ گرے تب لگ کوک پکار (بابا فرید)

کوک فریدا کوک (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی)

Prof. Ahmad Naeem Chisti

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی

’چھانگیا رکھ‘ بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی ہے جو سن دو ہزار دو میں پنجابی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متعدد زبانوں میں تراجم کیے جا چکے ہیں۔ دو ہزار دس میں آکسفورڈ پریس نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یوں ’چھانگیا رکھ‘ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی۔

’چھانگیا رکھ‘ کو ’دلت لٹریچر‘ میں اہم مقام حاصل ہے۔ دلت لٹریچر میں ہندوستان کے اچھوت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ دلت لٹریچر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی پکار ہے۔

بلبیر مادھوپوری ہندوستان کے ضلع جالندھر کے گاؤں مادھو پور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاعر ہیں۔ پنجابی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ مترجم اور محقق بھی ہیں۔

بلبیر مادھوپوری نے کتاب کا عنوان بہت خوبصورت چنا ہے۔ ’چھانگیا رکھ‘ ! پنجابی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسے درخت کو کہتے ہیں جسے چھانگ دیا گیا ہو۔ جس کی ٹہنیاں اور شاخیں کلہاڑی سے کاٹ دی گئی ہوں۔ چھانگیا رکھ دوسرے درختوں سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔ قدرتی پیڑوں والی خوبصورتی اور کشش سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ٹنڈ منڈ سا ہو جاتا ہے۔ چھانگیا رکھ دلت کمیونٹی، نچلے اور مظلوم طبقے، حتی کہ ہر مظلوم شخص کی علامت بنتا ہے جنہیں آزادی اور عزت کے ساتھ جینے نہیں دیا جاتا۔ سماج میں ان کو پنپنے کے مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں آتے۔ ان کو چھانگیا رکھ بنا دیا جاتا ہے۔

بلبیر مادھوپوری کا چھانگیا رکھ جہاں مظلومیت کا استعارہ ہے وہاں یہ مزاحمت، نئی زندگی اور ترقی کا بھی استعارہ ہے۔ کیونکہ پیڑ کو جب چھانگا جاتا ہے تو پھر اس پہ نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز اور دلکش ہوتی ہیں۔

چھانگیا رکھ میں بلبیر مادھوپوری نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی دکھائی ہے۔ وہ کٹھن حالات دکھائے ہیں جن سے اس کا خاندان گزرا۔ یہ ایسے طبقے کی سچی داستان ہے جو محرومی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہے۔ یہ محرومی اور ذلت معاشرے اور نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی دین ہے۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ان کے طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ غربت یا محرومی نہیں ہے بلکہ وہ تحقیر ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ بستی ہے۔ یہ کتاب ہمیں ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ دلت کمیونٹی، شیڈول ذاتیں، چمار، اچھوت اور دیگر ’نمانے لوک‘ ذات پات کے ایسے بے رحم نظام میں پھنسے ہیں جن میں وہ آزادی سے محروم ہیں۔ نہ شخصی آزادی ہے نہ سیاسی۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ذات پات کا یہ نظام خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ انسانوں کی ہی تخلیق ہے۔

یہ کتاب غربت کا بھیانک چہرہ بھی دکھاتی ہے۔ جس طبقے کو مساوات اور آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے وہ غربت میں دھنستا جاتا ہے۔ بلبیر مادھو پوری کا خاندان اور ان کی کمیونٹی کے دیگر لوگ انتہائی غربت میں جیون بسر کرتے ہیں۔ دادی مردہ جانوروں کا گوشت کھانے کا دور بھی یاد کرتی ہے۔ وہ لوگ مردہ جانوروں کی چربی کو گھی کی جگہ استعمال کرتے تھے۔

نچلی ذات کے لوگوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ گاؤں میں ان کی آبادی بھی ایک طرف الگ ہوتی ہے۔ وہ گرودوارے نہیں جا سکتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو نہیں چھو سکتے۔ ان کو انسان ہونے کا مقام بھی نہیں دیا جاتا۔

بلبیر مادھو پوری کے نزدیک دلت کمیونٹی کی مساوات اور برابری کے حصول کی یہ تحریک یتیم ہے۔ معاشرہ اس تحریک کا بھرپور ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی مذہبی یا سیاسی تحریک ایمانداری سے ذات پات کے نظام کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتی۔ ذات پات کے نظام کی جڑیں بدقسمتی سے بہت گہری سرایت کر چکی ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ اور دلت لٹریچر امریکہ کے کالے لوگوں کے لٹریچر سے مماثلت رکھتا ہے۔ دلت اور بلیک طبقے اپنے اپنے ممالک میں ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ دونوں طبقات کو عزت، آزادی اور قبولیت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب تھا کہ امریکہ میں ایک دن ایسا آئے گا کہ گوروں اور کالوں کے بچے ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ اسی طرح بلبیر مادھو پوری کا بھی خواب ہے کہ ایک دن ہندوستان میں ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ انسان اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور کردار سے جانچے جائیں گے۔ سب انسان برابر تصور کیے جائیں گے اور سبھی عزت و تکریم کے حقدار ٹھہریں گے۔

انیس سو اٹھاون میں جب مارٹن لوتھر کنگ ہندوستان آئے اور انہوں نے دلت لوگوں کی مصیبتوں کو جانا تو انہوں نے کہا کہ ’میں بھی ایک دلت ہوں کیونکہ ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں۔‘

’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر مادھوپوری ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ جب لوگ ذات پات کو مذہب اور خدا کی مرضی سے جوڑتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ ایسا مذہب جو انسانوں کی برابری نہیں چاہتا، جو مساوات اور انسانوں کی تکریم نہیں دیکھ سکتا تو پھر ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟

بلبیر مادھوپوری تعلیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ مظلوم طبقے کے پاس تعلیم کی سیڑھی ہے جو وہ بہتر جگہ پر پہنچنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر کے بھائیا (والد) بھی چند ’اکھر‘ پڑھ کر محرومی اور ذلت کی دلدل سے نکلنے پر زور دیتے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ میں دیہاتی زندگی کے سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ دیہاتی کلچر دیکھنے والوں کے لئے بھی یہ کتاب بہترین تحفہ ہے۔

یہ کتاب ایک آئینہ ہے۔ اس میں ہمیں اپنے معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔ ظلم، طبقاتی کشمکش اور کمزور طبقات کی مجبوریاں جو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں وہ اس کتاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی عالمگیریت اس کتاب کی بڑی خصوصیت ہے۔

کتاب کی نثر میں روانی اور سادگی ہے۔ بلبیر مادھو پوری چونکہ شاعر ہیں تو نثر میں بھی شاعری کی مٹھاس اور موسیقی گندھی ہوئی ہے۔ دیہاتی رہن سہن سے لیے گئے استعارے بہت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ پنجابی، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اسے پڑھیے اور اپنے ذہن کے دریچوں میں بلبیر مادھو پوری کی جلائی ہوئی شمع کی کرنیں بکھیرئیے۔ اور بلبیر مادھو پوری کے اس خوبصورت پیغام کو دل میں جگہ دیجیے کہ تمام انسان قابل عزت ہوتے ہیں اور محبت کرنے کے قابل بھی۔

چند دن قبل ’چھانگیا رکھ‘ پر ایک تعارفی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تو بلبیر مادھوپوری جی نے سوشل میڈیا کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا۔ وٹس ایپ پر ان کی کال آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پنجابی میں بات کر رہے تھے تو مجھے اپنے ہی گاؤں واسی لگتے تھے۔

میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسی شاہکار کتاب کے مصنف میرے کانوں میں گیان گھول رہے تھے۔ انہوں نے میرے تجزیے کی تعریف کی۔ بابا فرید الدین کی شاعری پہ بات کی۔ اپنے گاؤں مادھوپور کے بارے میں بھی باتیں کیں۔ بتایا کہ بٹوارے میں جب مادھو پور کے مسلمان پریوار گاؤں چھوڑ کے نئے ملک کی طرف گئے تو مادھو پور میں افسوس کا یہ عالم تھا کہ گاؤں میں اس دن کسی نے کھانا نہیں پکایا تھا۔ محبت کی ایسی کہانیاں بلبیر مادھو پوری شاعری اور نثر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ سچے اور کھرے ادیب جو ٹھہرے۔

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »

error: Content is protected !!