Ch Bakht Yar Zafar

لائبریری ادارہ معارف اسلامی،منصورہ، لاہور (محمد یونس انصاری)

لائبریری ادارہ معارف اسلامی،منصورہ، لاہور

Muhammad Younas Ansari,

[email protected]

تعارف

ادارہ معارف اسلامی ایک دینی، علمی اور تحقیقی ادارہ ہے جس کی داغ بیل مفکر اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے 1963 میں کراچی میں رکھی تھی۔ بعد ازاں فروری 1979ء میں ادارہ معارف اسلامی لاہور کا قیام عمل میں آیا اور جنوری 1980 سے یہاں علمی، تصنیفی و تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں۔

لائبریری کا آغاز: ادارے کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ادارے کے محققین اپنی تصنیفی ضروریات کو پورا کرنے کے لیےلائبریری سے مستفید ہوں۔ دیگر محققین اور طلبہ و طالبات کی دلچسپی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو بھی لائبریری سے استفادے کی اجازت دے دی گئی۔ لائبریری ادارہ معارف اسلامی جماعت اسلامی پاکستان کے مختلف شعبہ جات کی علمی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ،جامعہ مرکزِ علوم اسلامیہ منصورہ،جامعۃ المحصنات منصورہ، علماء اکیڈمی منصورہ،لاہور اور دیگر مدارس کے طلبہ و اساتذہ کی علمی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مختلف جامعات خصوصاً پنجاب یونیورسٹی، اصلاح انٹر نیشنل لاہور،یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی(UMT)، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ، گجرات یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی(GCU) لاہور،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی(GCU) فیصل آباد کیمپس، منہاج یونیورسٹی، لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین(LCWU)، گورنمنٹ گلبرگ کالج برائے خواتین، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین لاہور، دی یونیورسٹی آف لاہور،سرگودھا یونیورسٹی، الخیر یونیورسٹی آزاد کشمیر، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، پشاور یونیورسٹی،اسلامیہ کالج پشاور، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور، لاہور لیڈز یونیورسٹی، و دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات اپنے مقالہ جات، اسائنمنٹس اورآرٹیکل وغیرہ تیار کرنے کے لیے اس لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں۔ صحافی حضرات اور پروفیسر صاحبان بھی لائبریری سے استفادے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔لائبریری کا عملہ حتی الوسع ان کو (کتب، رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ سے)متعلقہ مواد کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور بوقت ضرورت معلومات کی غرض سے پروفیسرز، علما حضرات بھی تشریف لاتے رہتے ہیں۔

ریفرنس لا ئبریری:تحقیقی،تصنیفی ا وریفرنس لائبریری ہونے کی وجہ سے کوئی کتاب جاری نہیں کی جاتی۔ البتہ ہر قاری لائبریری کے اوقاتِ کار کے دوران اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔اور متعلقہ مواد کی فوٹو کاپی کروا سکتا ہے، تصویریں لے سکتا ہے۔قارئین کی علمی و تحقیقی ضرورت پوری کرنے کے لیے اخبارات و رسائل بھی منگوائے جاتے ہیں۔اخبارات میں نوائے وقت،جنگ،ڈان،خبریں،نئی بات اورجسارت جبکہ قومی و بین الاقوامی اہمیت کے حامل رسائل بھی لائبریری میں آتے ہیں، ان کی جلد بندی کر کے انھیں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ ادارہ معارف اسلامی منصورہ کی لائبریری جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی لائبریری ہے۔اس میں قابلِ قدر کتب(اردو،عربی،انگریزی،فارسی وغیرہ) کا ذخیرہ ایک تاریخی،دینی و ثقافتی ورثے کی حیثیت سے محفوظ ہے۔لائبریری میں ملک وزیر غازی ایڈووکیٹ مرحوم (ملتان)کی ذاتی لائبریری(ایک ہزار انگریزی کتب) کا ایک حصہ’’گوشہ ملک وزیر غازی‘‘ کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔

 لائبریری کی خصوصیات: ہماری لائبریری میں 28,000 کے قریب مختلف موضوعات پر کتب، جن میں اسلام، سائنس،ادب، تاریخ، کمپیوٹر، فلسفہ، نفسیات، معاشیات،اقبالیات، پاکستانیات، لغات/انسائیکلوپیڈیاوغیرہ موجود ہیں۔ مختلف علمی و تحقیقی رسائل و جرائد، بالخصوص فکرو نظر،تکبیر،فرائیڈے اسپیشل، ترجمان القرآن، ایشیا،میثاق،افکارِ معلم،ہمقدم،المصباح، محدث،اشراق،البلاغ،بینات، قومی زبان، الحق، فقہ اسلامی، الشریعہ، تجزیات، تحصیل، معارف اسلامی، جہاتِ اسلام،حکمتِ بالغہ،ہلال،علوم القرآن، تحقیقاتِ اسلامی، معارف، دعوۃ،خواتین میگزین، بتول، عفت، پکار ملت،شاہراہ تعلیم،الایام،اردو،قومی،سیارہ ڈائجسٹ، بیداری،حکمتِ قرآن وغیر ہ اس لائبریری کی زینت ہیں۔e.books کا سیکشن بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ لائبریری کو کمپیوٹرائزڈ بھی کیا جا رہا ہے۔ نصف سے زائد لائبریری کمپیوٹرائز ہو چکی ہے۔

بجٹ: لائبریری کا سالانہ بجٹ تقریباً ایک لاکھ روپے ہے۔ جس سے قارئین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتب و رسائل کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔

یہاں ملکی و غیر ملکی طلبہ و طالبات، ادبی و سیاسی شخصیات اور اساتذہ کے علاوہ مختلف کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے وفود بھی آتے ہیں۔محققین حضرات کو اس سے مستفیض ہونے کی ہر ممکن سہولت دی گئی ہے۔خواتین کے لیے علیحدہ باپردہ اہتمام موجود ہے۔ یوں یہ لائبریری کسی بھی پبلک ریسرچ لائبریری سے بہتر انداز میں تحقیقی و علمی میدان میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

            اوقات کار:اس کے اوقات کار صبح 08:30سے شام30:6بجے تک ہیں۔بروز جمعۃ المبارک 12:30 سے30:3بجے سہ پہرتک وقفہ ہوتا ہے۔ ہفتہ وار تعطیل اتوار کو ہوتی ہے۔

ائر پورٹ: لاہورنیشنل ہائی وے/موٹروے: ٹھوکر نیاز بیگ، ملتان روڈ/جی ٹی روڈ:بتی چوک،بابو صابو بند روڈ۔ملتان روڈ

ڈاک خانہ: منصورہ،ملتان روڈ54790

*ایم اے لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس، اردو،بی ا یڈ

لائبریری ادارہ معارف اسلامی،منصورہ، لاہور (محمد یونس انصاری) Read More »

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت (محمد یونس انصاری)

Muhammad Younas Ansari

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت

لائبریرین ادارہ معارف اسلامی

 منصورہ لاہور

[email protected]

اسلام نے حصولِ تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ نبی آخر الزمانؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں پہلا لفظ’’ اقرا‘‘(پڑھ) تھا، یعنی علم حاصل کرو۔ اسلام نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض قرار دیا ہے۔

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔اور یہ شعور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کتب بینی کو اپنایا جائے۔ کتاب کو اہمیت دی جائے، مطالعے کو فروغ دیا جائے اور یہ اسی صورت ممکن جب تعلیم کو عام کیا جائے، کتب خانوں کو فروغ دیا جائے۔ اگر ماضی کا مشاہدہ کیا جائے تو مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد پر ہی دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ مسلم دانشوروں کے اس قیمتی علمی سرمائے سے دنیا میں جو جو مستفید ہو تا گیا ،ترقی اس کا مقدر بنتی گئی۔ یورپ نے مسلمانوں کے علمی سرمائے اور کتب سے بے پناہ فائدہ سمیٹا اور آج وہ ترقی کی دوڑ میںہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ کتب سے محبت اورمطالعے کی بنا پر ہی ہوا ہے۔

تعلیم کا عام ہونا ہی ہماری ترقی کا پہلا پیش خیمہ ہے۔ اگر معاشرے کا کارآمد شہری بننا چاہتے ہیں تو وقت ضائع کرنے والے مشاغل کو ترک کر کے کتب بینی کو مشغلہ بنانا چا ہیے اور اس کے لیے ضروری ہے سکول سطح پر کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کتب بینی اور مطالعے کا شوق اگر سکول سطح سے اجاگر کیا جائے، تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ ترقی کے لیے علم بہت ضروری ہے اور ہمارے طالب علم ہی مستقبل کے معمار ہیں۔

آج ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان بنا دیا ہے۔گلوبل ویلج کا خواب دیکھنے والوں نے دنیا کو بس ایک نقشے میں سمو دیا ہے۔جدید ترقی کا ذکر اگر تکنیکی الفاظ میں کیا جائے تو آپ کے ہاتھ میں ابھی جو شے ہے ،بذاتِ خود وہ ایک دنیا ہے اور آپ کے ہاتھ میں موجود اس شے(موبائل) میں او رکچھ نہیں تو ایک ای بک(e.book) ضرور ہے جس سے کسی بھی کتاب کو تلاش کرنا انتہائی آسان ہے ہم چند سیکنڈ میں کتاب نکال کر پڑھ سکتے ہیں مگر جو اہمیت کتاب کی ہے اور جو لطف کتاب کے مطالعے میں ہے،وہ اس بک میں نہیں ہے۔

علم کے لیے جہاں اسکول،کتاب اور استاد کا ہونا ضروری ہے وہاں لائبریری کا ہونا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہم اپنے موبائل یا ٹیبلٹ میں بیک وقت سیکڑوں کتابیں محفوظ رکھ سکتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود لائبریری کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت آج بھی اپنی اسی حالت میں مو جود ہے بلکہ اس میں جدت بھی آ رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میںجدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال ہم سے کہیں زیادہ مگر ان کے ہاںبھی پبلک کتب خانے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ جہا ں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔

’’ اگر ہمارے کتب خانے رات دیر تک کھلے رہیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں سکتی۔‘‘ یہ خوبصورت جملہ مشہور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا۔ ونسٹن چرچل نے یہ جملہ تب ادا کیا جب ان کی افواج دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر (جرمنی)سے بر سرِپیکار تھیں۔

سکول لائبریری کا ایک سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ طالب علم ہر کتاب خرید کر نہیں پڑھ سکتا، اگر سکول میں لائبریری موجود ہو گی تو وہاں سے بہ آسانی کتاب جاری کروا کر گھر لے جا سکتا ہے یا وہیں بیٹھ کر مطالعہ کر سکتا ہے۔سکول کی سطح پرطالب علم کی نشونما ہو رہی ہوتی ہے یہیں پرطلبہ اپنے دیگر دوستوں سے ملتے ہیں، معلومات کا تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کیے گئے مطالعے اور کتب سے متعلق اپنی اپنی آرا پیش کرتے ہیں۔ تجزیے وغیرہ سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کی جھجک دور ہوتی ہے۔ بولنے کا انداز پروان چڑھتا ہے۔ لائبریری صرف کتب بینی کے لیے ایک ماحول ہی مہیا نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ یہ معاشرے میں ایک اہم کردار طلبہ کی شکل میں تخلیق کر رہی ہوتی ہے۔ جیسے ہر شے کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے لیے ایک اچھے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سکول کتب خانوں کا قیام ناگزیر ہے۔

سکول سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اچھی لائبریری قائم کرے۔جس میں

٭۔ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق کتب رکھی جائیں۔

٭          ۔آرام دہ فرنیچر کا اہتما م ہو۔

٭۔ بچوں کی رہنمائی کے لیے ایک تجربہ کار ناظم کتب خانہ کا تقرر کیا جائے۔

٭۔کلاس روم میں کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کو وقتاً فوقتاً اجاگر کیا جائے۔

٭          ۔مطالعہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے، طریقہ کار بتایا جائے۔

٭          ۔ لائبریری میں نئی کتب کا اضافہ ممکن بنایا جائے۔

٭۔مختلف موضوعات پر مقابلہ جاتی اور تقاریر کے پروگرام رکھے جائیں۔

٭          ۔کلاس انچارج کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ طلبہ کو کچھ وقت کے لیے لائبریری میں لائیں۔ اس سے بچوں کی کتب کے ساتھ ذہنی اور قلبی وابستگی مضبوط ہو گی۔

٭۔بچوں میں کتب تحائف دینے کی روایت پروان چڑھائی جائے۔

٭۔اساتذہ وقتاً فوقتاً جائزہ لیں کہ طلبہ کتابوں کا کس حد تک مطالعہ کرتے ہیں۔

٭۔ طلبہ کی کارکردگی رپورٹ میں،مختلف مضامین میں ان کے حاصل کردہ نمبروں کے ساتھ یہ بھی درج کیا جائے کہ طالب علم نے دورانِ سال کتنی کتب،لائبریری سے جاری کرائی اور پڑھی ہیں۔

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت (محمد یونس انصاری) Read More »

The impact of Research Libraries at State Level (Fakhra Khalid)

 

Fakhra khalid

Fakhra Khalid

The impact of Research Libraries at State Level

The role of research libraries is as significant as the role of library in other academic areas. The role of research library is pivotal on state level, libraries have in-depth resources in the form of books, journals, magazines, articles, and bibliographies. Libraries offer space for users to learn and provide excellent environment for research. Libraries have healthy staff that can help students in locating the information that a researcher might need and pay brilliant impact on state level.Most research libraries today have systematic digitized information, they provide digital access to e-books, e-journals and different website’s links etc. These libraries try to maintain their importance in current digital age. The age of research’ it was mentioned that electronic and digital services are the most important service that a library can provide to its users. The digital research library is a new trend and has added convenience for the users to search any information.

Good research libraries help institutions to produce and hold top researchers at the state level. We know there is a global competition for top researchers, and institutional reputation is key to attracting them. Many factors contribute to a good reputation, library contributes as a research body and its positively impact on state. The quality, nature, and extent of the library’s collections, effective staff and the services they provide, building design are all important. Successful and high-quality research libraries can be a significant factor in producing and holding top researchers.

Research libraries help research students to win research grants and contracts with international universities for further education. Success in winning research grants and contracts is critically-important, especially for research-intensive universities. Research Support Offices help researchers to generate a regular flow of high-quality applications for such grants and contracts, libraries are playing an increasingly significant role too. On the whole they do so in response to specific requests rather than proactively, however, researchers are not required to consult the library in generating their bids. Libraries could play a greater role if researchers knew that support was available, and if their involvement was more formalized. Libraries have an opportunity to use their skills to help researchers improve the quality of their funding applications, and to increase the institution’s success in winning research income. These services make a good image of research as state level.

Research libraries promote and exploit new research technologies and new models of scholarly communications. Research libraries are critically important in helping researchers to exploit the full benefits and opportunities of the networked world, including such developments as open access and social media. Many libraries have succeeded in addressing technological problems, by establishing stronger links with researchers and re focusing their services to promote and exploit new technologies and new models of scholarly communication. Research libraries provide easy access to high-quality content related to research, and its value is recognized by researchers.

Libraries spend huge amounts to manage and develop their collections provide access to researchers. But we saw researchers always want more. This need pressure on institutional budgets, good research libraries are still seeking to increase the content budget. Research libraries meet researchers’ needs more effectively as well as helping their dialogue with the senior managers from whom they seek funding. Libraries are one of the most enduring features of the academy, central to the values and the practice of scholarship, value of research library is alsovery crucial cornerstone and it represent the institutional research at state level in very positive and effective ways.

The impact of Research Libraries at State Level (Fakhra Khalid) Read More »

Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں

Ch. Bakht Yar Zafar
Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں
زمانے میں مدفن ہیں کتنے زمانے، زمانہ نگل گیا دست کی پوروں کے فن، رگ و ریشے میں خمیر زدہ ہنر، کوکون ریشم میں لپٹ کر دائمی حیات کے خواب بنتا ہے مگر وہی ریشم اسے موت کا پژمژدہ سناتا ہے، کوکون کو کیا خبر وہ ریشم کے پالا گیا ہے نا کہ پروانہ بن کر مٹنے کے لیے، کس کو خبر تھی کہ جولاہوں کا فن و ہنر انکا کاتنا انکا بننا انکا رنگنا سب پاورلومز کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو جاے گا۔مٹی کے کھلونے تراشنے والے کمہار، لنگی،پشمینہ، سلارا،کھیس،پٹو،گلوبند، بوٹھلا، لاچا، اونی چادر بننے والے جولاہے، لکٹری کی چارپائیاں، موڑھے بنانے والے ترکھان،مستری، لوہار معاشرے کو زینت بخشنے والے کسمپرسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان سے کم نرخ میں خرید کر آرٹ اور فیشن کے نام پر بیچنے والے تاجر بن گئے۔پاور لومز، اور نت نئی جدت کے داو پیچ پر مکٹری کے جالے بن کر، ایکسپورٹ، کے نام پر جولاہوں کا نسل در نسل کھڈیوں والا ہنر مرنے لگا ہے، ایک طرف صدیوں پرانا ہنر ہے جو وراثتوں میں منتقل ہوتا رہا ایک ہاتھ سے دوسرت تک فخر سے پہنچتا رہااب آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔
ہماری تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا نوح انسان، موہنجو داڑو، ہٹرپہ، حسن ابدال کے کھنڈرات، ٹھٹھہ، اجودھن،تاریخ طاہری کے مصنف کے بقول صرف ٹھٹھہ میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے کوریوں کے تھے،وادی سندھ میں قدیم عہد سے آج تک ایسی اشیاء تیار ہوتی رہی جو اہمیت کی حامل ہیں، سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا تھا جو کپاس اور ریشم کے دھاگے سے بنتا تھا اسکی تیا ری میں چرخے اور کات کا استعمال ہوااور اس چرخے لو صوفی شعراء نے اپنے کلام میں بھی استعمال کیا، تاریک کی کتب عیا ں کرتی ہیں کہ سندھ پاکستان میں سب سے پہلے کپڑا تیار ہوا پانچ ہزار سال قبل موہنجو داڑا کی تہذہب نے کپاس کی کاشت کی اور اس سے دھاگے بناے، یہ بات پایہ ثبوت ہے جس وقت بشر کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا پاکستان سندھ میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول کہکشاوں کی مانند کھلا کرتے تھے، جب دنیا درختوں کی چھال اور پتے پرو کر کمر سے باندھا کرتے تھے موہنجوداڑو میں ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں مصر میں جب کوئی فرعون مرتا تو اسکو کفن بھی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔میسو پوٹیمیا کے باسیوں نے جو خود کو قدیم تہذیب کے آباء مانے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان سندھ سے کپاس کے بیج دینے کی درخواست کی اور پہلی بار میسو پٹیمیائی باشندوں نے کھردری کھال کی بجائے کپاس کے نرم و گداز پیراہن کو زیب تن کیا۔اسی طرح جب سکندر اعظم اور یونانی پاکستان سندھ میں آے تو کپاس کو دیکھ کر ششدر رہ گئے،اور یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ لفظ کاٹن، کپاس اور کاتنے سے ماخوذ ہے جو قدیم پاکستان سندھ کی ایجاد ہے۔قائداعظم کے والد جناح پونجا بھی کھڈی کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
کھڈیاں ایک دیسی صنعت تھی اور اس دیسی ساخت صنعت نے اپنے عروج کی کئی بہاریں دیکھیں ہیں سستے زمانے کے لوگ دیسی او ر خالص طیبعت کے مالک ہوا کرتے تھے ان کے شوق بھی سندھی چادر کو گلے کا ہار بنا کے رکھنا ہوتا تھا، کھڈیوں سے بنا گلوبند مفلر بھی ان کا زیور تھا پنجابی فلموں میں لاچے، پٹو پہن کر ان کی خوب مارکیٹنگ ہوا کرتی تھی۔ یہ کھڈیاں اپنے عروج سے نہال تھیں تو اب اپنے زوال کی بھی تاریخ رقم کر رہی ہیں اس سے وابسطہ لوگ خوشحال ہوا کرتے تھے، اس کو چلانے کے لیے کسی بڑی بلڈنگ کی ضرورت قطعی نہیں ہوتی تھی، نہ سینکڑوں کاری گاروں کی فوج بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی تھی بس زمیں میں اڑھائی فٹ کا گڑھا کھودا ، ایک چھپر ڈالا، لکڑی کی ایک میخ زمیں میں گاڑی، دھاگا اس کے ساتھ باندھا اور کام شروع کر دیا
پاکپتن میں جولاہے اپنی کھڈیوں کی وجہ سے مشہور تھے،کھیس تو اب کنارہ کر گئے،اون کی بنی چادریں ااورانکا کھردری بنتر کا لمس جداگانا ہوتا تھا، ٹھٹھرتی سردی میں کھیس کی حدت کیا کمال تھی،پاکپتن مزاروں اورعقیدتوں کا شہر ہے اس میں کہانیا ں بستی ہیں، کھڈیاں بننے والے تاریخ کی ڈور چرخی پر لپیٹ کر تاریک رقم کرتے تھے مگر ہر صبح کھڈیوں کی تعداد گھٹا رہی ہے گھروں سے چرخے ختم ہو رہے ہیں تو گلیوں میں دھاگے رنگتے جولاہے کوئی اور ہی کام کی فکر میں نکل پڑے ہیں، پاکپتن میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے محلے گلیوں میں لگی کھڈیاں اور اس پر مرد و خواتین بیٹھی رچھ میں دھاگے ڈال کر نال میں ریلیں لگا نے میں محو ہوتی تھیں، مرد اپنے ہاتھوں سے رتھ کو کھینچ کر کپڑے کو داب دے رہا ہوتا تھا تو عورتیں کچن لے کر دھاگوں سے بل نکال رہی ہوتی تھیں مرد پیرڈی سے لنگی میں رنگ بھر رہا ہوتا تھا تو عورت طر پر بنے کپڑے کو لپیٹ رہی ہوتی تھی،مرد تھکتا تو عورت آدھلکھ کو دیکھ کر حوصلہ بڑھانے میں لگی ہوتی،فڑتا، لپنک، پھیرنی، کلا، کلارنا، رسن کھرک جولاہوں کے دلکش اوزار ہوا کرتے تھے، گٹیا ویلن پر بیٹھے جولاہیاپنے فن کی آبیاری کرتے دکھائی دیتے تھے۔ پاکپتن میں کھڈیاں شہرت کی حامل تھیں، محلہ حسن پورہ، کرم پورہ گڑھ تصور کیے جاتے تھے گرد و نواح میں یہا ں سے ایکسپورٹ کی جاتی تھیں
محلہ حسن پورہ میں کھڈیوں سے منسوب محمدرمضان جس کی عمر اور بینائی کھڈیوں پر کپڑا بنتے گئی اس سے جب پوچھا تو سوچوں کے بحر سو اس ک پاس اپنی بے بسی بیان کرنے کو الفاظ نہیں تھے، ساری حیات دوسروں کو ان کی منشاء کے مطابق دلکش و دلنشین لبادے اوڑھنے والا اب ایک وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہے بھیک مانگ کر زیست کی بچی ساعتیں گزار رہا ہے، محلہ حسن پورہ میں ہی ایک اور کھڈی سے منسوب محمد حسین وہ بھی اب بڑھاپے کی لاٹھی ہانکتا ہے اس کا بیٹا بشیر کھڈیوں کا پیشہ چھوڑ کر اب پاپٹر بیچتا ہے کیوں کے دھگے کی قلت اور روئی کے مہنگے ہونے کی بنا پر اس سے انکا گزر بسر ہونا نا ممکن ہے اس لیے اس نے یہ کام دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا، ان کے بتانے پر محمد نذیر چک کالے خان کے پاس گئے تو وہ آج بھی اپنے خاندانی پیشے پر بضد ہے کہتا ہے مر تو جاوں گا پر یہ پیشہ نہیں چھوڑ سکتا دو دن میں بمشکل تین گز لمبی اور پونے دوگز کی ایک چادر تیا ر ہوتی ہے جس پر پانچ سے چھ سو خرچہ آجاتا ہے مگر یہ روز نا بنتی ہے اور نا بکتی ہے کئی کئی دن انتظار کے بعد جا کر آٹھ نو سو کی بکتی ہے جو کہ نا کافی ہے۔محلہ کرم پورہ میں مقیم عبدالغفور سے ملے تو اس نے بتایا وہ بچپن سے اسی کام سے منسوب ہے باپ دادا بھی اسی کام سے پیوستہ تھے میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں بچے بیوی مل کے کھڈی پے کام کرتے ہیں جب ان سے پوچھا کہ اب اس شہر میں کتنے افراد اس پیشے سے جڑے ہیں تو اعداد و شمار سے دل بسمل سا ہو گیا کہ سینکڑوں لوگوں سے اب یہ فقظ پندرہ بیس لوگوں تک محدود ہو گیا ہے،اسی طرح ہوتہ روڈ پر ملک پور کے قریب روڈ پر کھڈی لگائے ایک اور عبدالقادرسارا دن کھڈی پر کام کرتا دکھائی دیتا ہے اس کی آنکھوں میں کتنے خواب ہیں مگر سب دفن کرکے بیٹھا اس فن کو زندہ کرنے کی سعی میں مگن، لوگ گزرتے ہوے اس کھڈی پر بنی دلکش و دیدہ زیب، آنکھو ں کو چندھیا دینے والی ورائٹی کو دیکھ کر ایک دم کو رکتے ہیں سیلفی بنواتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس صنعت سے منسوب سب کی بس ایک ہی حکومت سے گزارش تھی ان کو دھاگا مفت نا سہی سستے داموں فروخت کیا جاے، اور حکومت ہم سے خود خریدے، اس آخری سانسیں لیتی دیسی صنعت کو مرنے سے بچایا جاے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی راہ ہو لیتے ہیں پتھر کی مورت سے جبین کو لہو سے رنگنے کا کیا فائدہ، کبھی ایک انجانی امید کی ڈور حالات اور امید کی روح کے تانے بانے میں اریپ ڈال دیتی ہے دل چاہتا ہے اب پر سکوں دکھائی دیا جاے مگر وراثتی فن اور دستی صنعت کی اس بوسیدہ عمارت کی دیواروں کو خود گرا کر اس زندان سے نکل کر انگلیاں کاٹنے کو جی نہیں کرتا،چار سو کھڈیوں اور ریشم و اون میں جکڑی روح اس کے بنا شانت کیسے رہ سکتی ہے وہ کیسے چھوڑ دیں چرخہ کاتنا، کھڈی پر بننا، رنگنا وہ اپنے ہنر سے دستبردار ہونے کے خواہاں نہیں ہوں بھی تو کیوں کہ انہی کے فن نے تو تاریخ کو تحریک دی، ننگ بند ن کو لبادے دیے، گئے وقتوں میں دست کی پوریں کٹوا لیں مگر اصلاف کے فن کو نابیچا اور نا چھوڑا

کھڈیاں کہاں کھو گئیں Read More »