Ch Bakht Yar Zafar

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت (محمد یونس انصاری)

Muhammad Younas Ansari

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت

لائبریرین ادارہ معارف اسلامی

 منصورہ لاہور

[email protected]

اسلام نے حصولِ تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ نبی آخر الزمانؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں پہلا لفظ’’ اقرا‘‘(پڑھ) تھا، یعنی علم حاصل کرو۔ اسلام نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض قرار دیا ہے۔

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔اور یہ شعور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کتب بینی کو اپنایا جائے۔ کتاب کو اہمیت دی جائے، مطالعے کو فروغ دیا جائے اور یہ اسی صورت ممکن جب تعلیم کو عام کیا جائے، کتب خانوں کو فروغ دیا جائے۔ اگر ماضی کا مشاہدہ کیا جائے تو مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد پر ہی دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ مسلم دانشوروں کے اس قیمتی علمی سرمائے سے دنیا میں جو جو مستفید ہو تا گیا ،ترقی اس کا مقدر بنتی گئی۔ یورپ نے مسلمانوں کے علمی سرمائے اور کتب سے بے پناہ فائدہ سمیٹا اور آج وہ ترقی کی دوڑ میںہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ کتب سے محبت اورمطالعے کی بنا پر ہی ہوا ہے۔

تعلیم کا عام ہونا ہی ہماری ترقی کا پہلا پیش خیمہ ہے۔ اگر معاشرے کا کارآمد شہری بننا چاہتے ہیں تو وقت ضائع کرنے والے مشاغل کو ترک کر کے کتب بینی کو مشغلہ بنانا چا ہیے اور اس کے لیے ضروری ہے سکول سطح پر کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کتب بینی اور مطالعے کا شوق اگر سکول سطح سے اجاگر کیا جائے، تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ ترقی کے لیے علم بہت ضروری ہے اور ہمارے طالب علم ہی مستقبل کے معمار ہیں۔

آج ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان بنا دیا ہے۔گلوبل ویلج کا خواب دیکھنے والوں نے دنیا کو بس ایک نقشے میں سمو دیا ہے۔جدید ترقی کا ذکر اگر تکنیکی الفاظ میں کیا جائے تو آپ کے ہاتھ میں ابھی جو شے ہے ،بذاتِ خود وہ ایک دنیا ہے اور آپ کے ہاتھ میں موجود اس شے(موبائل) میں او رکچھ نہیں تو ایک ای بک(e.book) ضرور ہے جس سے کسی بھی کتاب کو تلاش کرنا انتہائی آسان ہے ہم چند سیکنڈ میں کتاب نکال کر پڑھ سکتے ہیں مگر جو اہمیت کتاب کی ہے اور جو لطف کتاب کے مطالعے میں ہے،وہ اس بک میں نہیں ہے۔

علم کے لیے جہاں اسکول،کتاب اور استاد کا ہونا ضروری ہے وہاں لائبریری کا ہونا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہم اپنے موبائل یا ٹیبلٹ میں بیک وقت سیکڑوں کتابیں محفوظ رکھ سکتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود لائبریری کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت آج بھی اپنی اسی حالت میں مو جود ہے بلکہ اس میں جدت بھی آ رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میںجدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال ہم سے کہیں زیادہ مگر ان کے ہاںبھی پبلک کتب خانے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ جہا ں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔

’’ اگر ہمارے کتب خانے رات دیر تک کھلے رہیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں سکتی۔‘‘ یہ خوبصورت جملہ مشہور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا۔ ونسٹن چرچل نے یہ جملہ تب ادا کیا جب ان کی افواج دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر (جرمنی)سے بر سرِپیکار تھیں۔

سکول لائبریری کا ایک سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ طالب علم ہر کتاب خرید کر نہیں پڑھ سکتا، اگر سکول میں لائبریری موجود ہو گی تو وہاں سے بہ آسانی کتاب جاری کروا کر گھر لے جا سکتا ہے یا وہیں بیٹھ کر مطالعہ کر سکتا ہے۔سکول کی سطح پرطالب علم کی نشونما ہو رہی ہوتی ہے یہیں پرطلبہ اپنے دیگر دوستوں سے ملتے ہیں، معلومات کا تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کیے گئے مطالعے اور کتب سے متعلق اپنی اپنی آرا پیش کرتے ہیں۔ تجزیے وغیرہ سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کی جھجک دور ہوتی ہے۔ بولنے کا انداز پروان چڑھتا ہے۔ لائبریری صرف کتب بینی کے لیے ایک ماحول ہی مہیا نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ یہ معاشرے میں ایک اہم کردار طلبہ کی شکل میں تخلیق کر رہی ہوتی ہے۔ جیسے ہر شے کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے لیے ایک اچھے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سکول کتب خانوں کا قیام ناگزیر ہے۔

سکول سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اچھی لائبریری قائم کرے۔جس میں

٭۔ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق کتب رکھی جائیں۔

٭          ۔آرام دہ فرنیچر کا اہتما م ہو۔

٭۔ بچوں کی رہنمائی کے لیے ایک تجربہ کار ناظم کتب خانہ کا تقرر کیا جائے۔

٭۔کلاس روم میں کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کو وقتاً فوقتاً اجاگر کیا جائے۔

٭          ۔مطالعہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے، طریقہ کار بتایا جائے۔

٭          ۔ لائبریری میں نئی کتب کا اضافہ ممکن بنایا جائے۔

٭۔مختلف موضوعات پر مقابلہ جاتی اور تقاریر کے پروگرام رکھے جائیں۔

٭          ۔کلاس انچارج کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ طلبہ کو کچھ وقت کے لیے لائبریری میں لائیں۔ اس سے بچوں کی کتب کے ساتھ ذہنی اور قلبی وابستگی مضبوط ہو گی۔

٭۔بچوں میں کتب تحائف دینے کی روایت پروان چڑھائی جائے۔

٭۔اساتذہ وقتاً فوقتاً جائزہ لیں کہ طلبہ کتابوں کا کس حد تک مطالعہ کرتے ہیں۔

٭۔ طلبہ کی کارکردگی رپورٹ میں،مختلف مضامین میں ان کے حاصل کردہ نمبروں کے ساتھ یہ بھی درج کیا جائے کہ طالب علم نے دورانِ سال کتنی کتب،لائبریری سے جاری کرائی اور پڑھی ہیں۔

سکول میں لائبریری کی ضرورت و اہمیت (محمد یونس انصاری) Read More »

Fakhra khalid

The impact of Research Libraries at State Level (Fakhra Khalid)

 

Fakhra khalid

Fakhra Khalid

The impact of Research Libraries at State Level

The role of research libraries is as significant as the role of library in other academic areas. The role of research library is pivotal on state level, libraries have in-depth resources in the form of books, journals, magazines, articles, and bibliographies. Libraries offer space for users to learn and provide excellent environment for research. Libraries have healthy staff that can help students in locating the information that a researcher might need and pay brilliant impact on state level.Most research libraries today have systematic digitized information, they provide digital access to e-books, e-journals and different website’s links etc. These libraries try to maintain their importance in current digital age. The age of research’ it was mentioned that electronic and digital services are the most important service that a library can provide to its users. The digital research library is a new trend and has added convenience for the users to search any information.

Good research libraries help institutions to produce and hold top researchers at the state level. We know there is a global competition for top researchers, and institutional reputation is key to attracting them. Many factors contribute to a good reputation, library contributes as a research body and its positively impact on state. The quality, nature, and extent of the library’s collections, effective staff and the services they provide, building design are all important. Successful and high-quality research libraries can be a significant factor in producing and holding top researchers.

Research libraries help research students to win research grants and contracts with international universities for further education. Success in winning research grants and contracts is critically-important, especially for research-intensive universities. Research Support Offices help researchers to generate a regular flow of high-quality applications for such grants and contracts, libraries are playing an increasingly significant role too. On the whole they do so in response to specific requests rather than proactively, however, researchers are not required to consult the library in generating their bids. Libraries could play a greater role if researchers knew that support was available, and if their involvement was more formalized. Libraries have an opportunity to use their skills to help researchers improve the quality of their funding applications, and to increase the institution’s success in winning research income. These services make a good image of research as state level.

Research libraries promote and exploit new research technologies and new models of scholarly communications. Research libraries are critically important in helping researchers to exploit the full benefits and opportunities of the networked world, including such developments as open access and social media. Many libraries have succeeded in addressing technological problems, by establishing stronger links with researchers and re focusing their services to promote and exploit new technologies and new models of scholarly communication. Research libraries provide easy access to high-quality content related to research, and its value is recognized by researchers.

Libraries spend huge amounts to manage and develop their collections provide access to researchers. But we saw researchers always want more. This need pressure on institutional budgets, good research libraries are still seeking to increase the content budget. Research libraries meet researchers’ needs more effectively as well as helping their dialogue with the senior managers from whom they seek funding. Libraries are one of the most enduring features of the academy, central to the values and the practice of scholarship, value of research library is alsovery crucial cornerstone and it represent the institutional research at state level in very positive and effective ways.

The impact of Research Libraries at State Level (Fakhra Khalid) Read More »

Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں

Ch. Bakht Yar Zafar
Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں
زمانے میں مدفن ہیں کتنے زمانے، زمانہ نگل گیا دست کی پوروں کے فن، رگ و ریشے میں خمیر زدہ ہنر، کوکون ریشم میں لپٹ کر دائمی حیات کے خواب بنتا ہے مگر وہی ریشم اسے موت کا پژمژدہ سناتا ہے، کوکون کو کیا خبر وہ ریشم کے پالا گیا ہے نا کہ پروانہ بن کر مٹنے کے لیے، کس کو خبر تھی کہ جولاہوں کا فن و ہنر انکا کاتنا انکا بننا انکا رنگنا سب پاورلومز کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو جاے گا۔مٹی کے کھلونے تراشنے والے کمہار، لنگی،پشمینہ، سلارا،کھیس،پٹو،گلوبند، بوٹھلا، لاچا، اونی چادر بننے والے جولاہے، لکٹری کی چارپائیاں، موڑھے بنانے والے ترکھان،مستری، لوہار معاشرے کو زینت بخشنے والے کسمپرسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان سے کم نرخ میں خرید کر آرٹ اور فیشن کے نام پر بیچنے والے تاجر بن گئے۔پاور لومز، اور نت نئی جدت کے داو پیچ پر مکٹری کے جالے بن کر، ایکسپورٹ، کے نام پر جولاہوں کا نسل در نسل کھڈیوں والا ہنر مرنے لگا ہے، ایک طرف صدیوں پرانا ہنر ہے جو وراثتوں میں منتقل ہوتا رہا ایک ہاتھ سے دوسرت تک فخر سے پہنچتا رہااب آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔
ہماری تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا نوح انسان، موہنجو داڑو، ہٹرپہ، حسن ابدال کے کھنڈرات، ٹھٹھہ، اجودھن،تاریخ طاہری کے مصنف کے بقول صرف ٹھٹھہ میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے کوریوں کے تھے،وادی سندھ میں قدیم عہد سے آج تک ایسی اشیاء تیار ہوتی رہی جو اہمیت کی حامل ہیں، سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا تھا جو کپاس اور ریشم کے دھاگے سے بنتا تھا اسکی تیا ری میں چرخے اور کات کا استعمال ہوااور اس چرخے لو صوفی شعراء نے اپنے کلام میں بھی استعمال کیا، تاریک کی کتب عیا ں کرتی ہیں کہ سندھ پاکستان میں سب سے پہلے کپڑا تیار ہوا پانچ ہزار سال قبل موہنجو داڑا کی تہذہب نے کپاس کی کاشت کی اور اس سے دھاگے بناے، یہ بات پایہ ثبوت ہے جس وقت بشر کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا پاکستان سندھ میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول کہکشاوں کی مانند کھلا کرتے تھے، جب دنیا درختوں کی چھال اور پتے پرو کر کمر سے باندھا کرتے تھے موہنجوداڑو میں ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں مصر میں جب کوئی فرعون مرتا تو اسکو کفن بھی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔میسو پوٹیمیا کے باسیوں نے جو خود کو قدیم تہذیب کے آباء مانے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان سندھ سے کپاس کے بیج دینے کی درخواست کی اور پہلی بار میسو پٹیمیائی باشندوں نے کھردری کھال کی بجائے کپاس کے نرم و گداز پیراہن کو زیب تن کیا۔اسی طرح جب سکندر اعظم اور یونانی پاکستان سندھ میں آے تو کپاس کو دیکھ کر ششدر رہ گئے،اور یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ لفظ کاٹن، کپاس اور کاتنے سے ماخوذ ہے جو قدیم پاکستان سندھ کی ایجاد ہے۔قائداعظم کے والد جناح پونجا بھی کھڈی کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
کھڈیاں ایک دیسی صنعت تھی اور اس دیسی ساخت صنعت نے اپنے عروج کی کئی بہاریں دیکھیں ہیں سستے زمانے کے لوگ دیسی او ر خالص طیبعت کے مالک ہوا کرتے تھے ان کے شوق بھی سندھی چادر کو گلے کا ہار بنا کے رکھنا ہوتا تھا، کھڈیوں سے بنا گلوبند مفلر بھی ان کا زیور تھا پنجابی فلموں میں لاچے، پٹو پہن کر ان کی خوب مارکیٹنگ ہوا کرتی تھی۔ یہ کھڈیاں اپنے عروج سے نہال تھیں تو اب اپنے زوال کی بھی تاریخ رقم کر رہی ہیں اس سے وابسطہ لوگ خوشحال ہوا کرتے تھے، اس کو چلانے کے لیے کسی بڑی بلڈنگ کی ضرورت قطعی نہیں ہوتی تھی، نہ سینکڑوں کاری گاروں کی فوج بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی تھی بس زمیں میں اڑھائی فٹ کا گڑھا کھودا ، ایک چھپر ڈالا، لکڑی کی ایک میخ زمیں میں گاڑی، دھاگا اس کے ساتھ باندھا اور کام شروع کر دیا
پاکپتن میں جولاہے اپنی کھڈیوں کی وجہ سے مشہور تھے،کھیس تو اب کنارہ کر گئے،اون کی بنی چادریں ااورانکا کھردری بنتر کا لمس جداگانا ہوتا تھا، ٹھٹھرتی سردی میں کھیس کی حدت کیا کمال تھی،پاکپتن مزاروں اورعقیدتوں کا شہر ہے اس میں کہانیا ں بستی ہیں، کھڈیاں بننے والے تاریخ کی ڈور چرخی پر لپیٹ کر تاریک رقم کرتے تھے مگر ہر صبح کھڈیوں کی تعداد گھٹا رہی ہے گھروں سے چرخے ختم ہو رہے ہیں تو گلیوں میں دھاگے رنگتے جولاہے کوئی اور ہی کام کی فکر میں نکل پڑے ہیں، پاکپتن میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے محلے گلیوں میں لگی کھڈیاں اور اس پر مرد و خواتین بیٹھی رچھ میں دھاگے ڈال کر نال میں ریلیں لگا نے میں محو ہوتی تھیں، مرد اپنے ہاتھوں سے رتھ کو کھینچ کر کپڑے کو داب دے رہا ہوتا تھا تو عورتیں کچن لے کر دھاگوں سے بل نکال رہی ہوتی تھیں مرد پیرڈی سے لنگی میں رنگ بھر رہا ہوتا تھا تو عورت طر پر بنے کپڑے کو لپیٹ رہی ہوتی تھی،مرد تھکتا تو عورت آدھلکھ کو دیکھ کر حوصلہ بڑھانے میں لگی ہوتی،فڑتا، لپنک، پھیرنی، کلا، کلارنا، رسن کھرک جولاہوں کے دلکش اوزار ہوا کرتے تھے، گٹیا ویلن پر بیٹھے جولاہیاپنے فن کی آبیاری کرتے دکھائی دیتے تھے۔ پاکپتن میں کھڈیاں شہرت کی حامل تھیں، محلہ حسن پورہ، کرم پورہ گڑھ تصور کیے جاتے تھے گرد و نواح میں یہا ں سے ایکسپورٹ کی جاتی تھیں
محلہ حسن پورہ میں کھڈیوں سے منسوب محمدرمضان جس کی عمر اور بینائی کھڈیوں پر کپڑا بنتے گئی اس سے جب پوچھا تو سوچوں کے بحر سو اس ک پاس اپنی بے بسی بیان کرنے کو الفاظ نہیں تھے، ساری حیات دوسروں کو ان کی منشاء کے مطابق دلکش و دلنشین لبادے اوڑھنے والا اب ایک وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہے بھیک مانگ کر زیست کی بچی ساعتیں گزار رہا ہے، محلہ حسن پورہ میں ہی ایک اور کھڈی سے منسوب محمد حسین وہ بھی اب بڑھاپے کی لاٹھی ہانکتا ہے اس کا بیٹا بشیر کھڈیوں کا پیشہ چھوڑ کر اب پاپٹر بیچتا ہے کیوں کے دھگے کی قلت اور روئی کے مہنگے ہونے کی بنا پر اس سے انکا گزر بسر ہونا نا ممکن ہے اس لیے اس نے یہ کام دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا، ان کے بتانے پر محمد نذیر چک کالے خان کے پاس گئے تو وہ آج بھی اپنے خاندانی پیشے پر بضد ہے کہتا ہے مر تو جاوں گا پر یہ پیشہ نہیں چھوڑ سکتا دو دن میں بمشکل تین گز لمبی اور پونے دوگز کی ایک چادر تیا ر ہوتی ہے جس پر پانچ سے چھ سو خرچہ آجاتا ہے مگر یہ روز نا بنتی ہے اور نا بکتی ہے کئی کئی دن انتظار کے بعد جا کر آٹھ نو سو کی بکتی ہے جو کہ نا کافی ہے۔محلہ کرم پورہ میں مقیم عبدالغفور سے ملے تو اس نے بتایا وہ بچپن سے اسی کام سے منسوب ہے باپ دادا بھی اسی کام سے پیوستہ تھے میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں بچے بیوی مل کے کھڈی پے کام کرتے ہیں جب ان سے پوچھا کہ اب اس شہر میں کتنے افراد اس پیشے سے جڑے ہیں تو اعداد و شمار سے دل بسمل سا ہو گیا کہ سینکڑوں لوگوں سے اب یہ فقظ پندرہ بیس لوگوں تک محدود ہو گیا ہے،اسی طرح ہوتہ روڈ پر ملک پور کے قریب روڈ پر کھڈی لگائے ایک اور عبدالقادرسارا دن کھڈی پر کام کرتا دکھائی دیتا ہے اس کی آنکھوں میں کتنے خواب ہیں مگر سب دفن کرکے بیٹھا اس فن کو زندہ کرنے کی سعی میں مگن، لوگ گزرتے ہوے اس کھڈی پر بنی دلکش و دیدہ زیب، آنکھو ں کو چندھیا دینے والی ورائٹی کو دیکھ کر ایک دم کو رکتے ہیں سیلفی بنواتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس صنعت سے منسوب سب کی بس ایک ہی حکومت سے گزارش تھی ان کو دھاگا مفت نا سہی سستے داموں فروخت کیا جاے، اور حکومت ہم سے خود خریدے، اس آخری سانسیں لیتی دیسی صنعت کو مرنے سے بچایا جاے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی راہ ہو لیتے ہیں پتھر کی مورت سے جبین کو لہو سے رنگنے کا کیا فائدہ، کبھی ایک انجانی امید کی ڈور حالات اور امید کی روح کے تانے بانے میں اریپ ڈال دیتی ہے دل چاہتا ہے اب پر سکوں دکھائی دیا جاے مگر وراثتی فن اور دستی صنعت کی اس بوسیدہ عمارت کی دیواروں کو خود گرا کر اس زندان سے نکل کر انگلیاں کاٹنے کو جی نہیں کرتا،چار سو کھڈیوں اور ریشم و اون میں جکڑی روح اس کے بنا شانت کیسے رہ سکتی ہے وہ کیسے چھوڑ دیں چرخہ کاتنا، کھڈی پر بننا، رنگنا وہ اپنے ہنر سے دستبردار ہونے کے خواہاں نہیں ہوں بھی تو کیوں کہ انہی کے فن نے تو تاریخ کو تحریک دی، ننگ بند ن کو لبادے دیے، گئے وقتوں میں دست کی پوریں کٹوا لیں مگر اصلاف کے فن کو نابیچا اور نا چھوڑا

کھڈیاں کہاں کھو گئیں Read More »

لائبریری اور ذہنی سوچ

انعام الرحمن

لائبریری اور ذہنی سوچ

لائبریری اور کتب کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں انسان اپنے مطالعے اپنی سوچ کی تخلیق اور نشوونما کرتا ہے۔ جہاں طالب علم اپنے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ جہاں پر نظریات پیدا ہوتی ہیں۔
لائبریری ممالک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماضی کے یونان سے لیکر آج کا مغرب کی ترقی کے پیچھے لائبریری کا ہی ہاتھ ہے۔ اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد وہاں کی لائبریری اور کتب مغرب منتقل کئے گئے۔ اندلس کے مسلمان نادر کتب کو اپنی شان سمجھتے تھے۔ جہاں مغرب کی ترقی میں لائبریری سے محبت کا اہم کردار ہیں وہی پر مسلمانوں کے زوال میں لائبریری سے دوری ایک اہم وجہ ہیں۔
اگر امریکہ کی ترقی اور دنیا پر حکمرانی پر غور کیا جائے۔ تو انکے ساتھ لائبریری آف کانگریس کا ذکر لازمی ملے گا کیونکہ لائبریری آف کانگریس نے امریکی قوم کی سوچ ہی بدل دی کیونکہ لائبریری قوموں کی ذہنی نشوونما کرتی ہیں۔ لائبریری کا اہم مقصد منفی سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنا ہیں۔ جیسا کہ منفی سوچ و نظریات مسلم دنیا اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں پروان چڑھ چکی ہیں اور معاشرہ تنگ نظری اور عدم برداشت تک پہنچ چکا ہیں۔ اسکی وجہ کتب اور لائبریری سے دوری ہے۔ جب لوگوں کے پاس بات کرنے کی دلیل ہی نہیں ہوگی تب وہ گالی اور گولی کی زبان میں ہی بات کریں گے۔
چین اگر آج دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری بنا چکا ہیں تو اس کے پیچھے بھی کوئی اہم مقصد ہوگا۔ چین اس بات کا تعین کرچکا ہیں کہ جہاں اقتصادی پالیسی ضروری ہے وہی پر قوم کو تعلیم و مطالعے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم صرف قوم کو اقتصادی طور پر مضبوط کر بھی دے تو ایسے دنیا کی دوسری قوموں سے مقابلے کیلئے علم کی ضرورت پڑے گی۔ آج دنیا بھر سے لوگ علم کیلئے چین کا ہی رخ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ ہی ہے کہ چین نے علم و کتب کو اہمیت دی۔
آج پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام وہ ممالک جو اخلاقی و معاشی پستی کا شکار ہے۔ معاشرہ عدم برداشت کی طرف جارہا ہیں۔ اسکی اہم وجہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کی لائبریری سے دوری ہیں۔ ہم کتب اور لائبریری کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جو لائبریری کا حق ہے۔ ہمارے قوم کے نوجوانوں کی سوچ اور ذہن کی نشوونما نوکر و نوکری کی سوچ سے زیادہ نہیں کی جارہی۔ ہماری لائبریری صرف اور صرف مزدور پیدا کررہی ہیں۔ ہمیں یہاں کوئی دانشور، کوئی سائنسدان، کوئی شاعر و ادیب اور سب سے بڑھ کر کوئی عظیم رہنما کیوں نہیں مل رہا؟ کیونکہ ہماری لائبریری اس معیار کی نہیں ہیں۔ جہاں ایسے عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ جو دنیا و قوموں کی تاریخ بدل دیتے ہیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل اور قوم کو لائبریری کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔ اپنے معاشرے میں کتب کا شوق پیدا کرنا ہوگا۔ یہ ایسی سوچ ہے، جو معاشرہ کو بدل سکتی ہیں۔ یہ کام معاشرے کے ہر پڑھے لکھے انسان کا ہے۔ خاص کر لائبریری سے جڑے ہر لائبریری پروفیشنلز کا ہے کیونکہ ان سے زیادہ لائبریری کی اہمیت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کیا کسی ایک بھی لائبریری پروفیشنل نے انفرادی طور پر معاشرے میں چھوٹی چھوٹی پرائیوٹ پبلک لائبریری پر کام کیا ہے۔ کیا ایک کمرے کی چھوٹی سی لائبریری اپنے محلے میں قائم کر رکھی ہیں۔ کیا محلے میں لائبریری کی اہمیت پر کھبی بات کی ہیں۔ جب ہم لائبریری سے پیار کرنے والے ایسے ہوں گے۔ تو باقی لوگ کیسے لائبریری کو اہمیت دیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو انفرادی انسان نے ہی لائبریری سے متعلق سوچ ہی بدل دی۔
ہمیں اپنے ملک میں لائبریری سے متعلق سوچ بدلنی پڑے گی۔ ایسوسی ایشن اور تنظیم صرف اپنے حقوق کیلئے نہیں بلکہ لائبریری کے تحفظ اور بحالی کیلئے بھی ہونی چاہیے۔ ہر یونین کونسل اور محلے میں ایک چھوٹی سی لائبریری کی بنیاد ضرور ہونی چاہیے۔ آج کی ایک چھوٹی سی لائبریری کل بہت بڑی سوچ کو پیدا کرے گی۔
انعام الرحمن
لائبریرین
اردو سائنس بورڈ
لاہور
[email protected]

لائبریری اور ذہنی سوچ Read More »

کتب خانوں کا معاشروں میں کرداراور ہمارا رویہ (محمد اکرم)

Ch. Muhammad Akram

کتب خانوں کا معاشروں میں کرداراور ہمارا رویہ

تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو کتا ب ماضی کی جبیں پر یہ الفاظ ثبت ہیں کے قومیں وہی بام عروج کو پہنچتی ہیں جو اپنے اسلاف کی تاریخ کو اپنی جبیں کا جھومر بنالیتی ہیں اور جو قوم اجداد سے آنکھیں پھیر لے اسکی بے بسی نوشتہ دیوار ہوا کرتی ہے۔ بزم ہستی شاہد ہے کہ عہد مسلم میں جتنی فوقیت کتب خانوں کو ملی شاید ہی کسی قوم نے دی ہے اور کہتے ہیں،ترقی کا راز تعلیم میں ہے تو تعلیم میں ترقی کتب خانوں سے منسوب ہیں اسی راز کو مسلمانوں نے پا لیا تو بیت الحکمت اور درالحکمت جیسے کتب خانے پورے عالم میں اپنی مثال آپ تھے۔سقوط بغداد میں بیت الحکمت کو ہلاکو خان کی سپہ تا تاریوں نے جب اس کتب خانے کو دریا برد کیا تو دریاے دجلہ کاپانی سات دن تک سیاہ رہا او ر تاتاریوں نے کتابوں سے پل بنا کر دریا عبور کیا، صدیوں پر محیط علم و ادب کے خزانے کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا گیا۔
ملک تعلیم سے ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہیں تو تعلیم کتب خانوں سے عروج پاتی ہے، مغرب کی ترقی اور فلک بوس عروج کا قصہ معشیت اور تعلم سے سرشار ہے مغرب کی ہیت کو فقط ٹیکنالوجی کے پیمانے پر پرکھنے والوں نے ان کے کتب خانوں کے عروج سے پہلو تہی کی۔ سات سو قبل مسیح آشوربانی پال کے کتب خانے سے کتب خانوں کا یہ سفر پرگامم کتب خانے سے ہوتا ہوا سکندریہ اور آج ۲۰۱۷ میں یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری، لائبریری اٖآف کانگریس کی شکل میں موجود ہے۔کتب خانوں نے عروج و زوال کے ان گنت نقوش قرطاس ہستی کی کتاب میں چھوڑے، مٹی کی تختیوں سے چلنے والی کتاب کی تحریک ویلیم، پارچمنٹ، پپائرس سے ہوتی ہوئی ۱۰۵ عیسوی میں چائنہ میں پہنچی اور پھر اڑن کھٹولے کی اڑان پکڑتی ہوئی ڈیجیٹل، انٹرنیٹ، آن لائن، پی ڈی ایف تک پہنچی اور ابھی یہ سفر باقی ہے۔
شومی قسمت کہ ارض پاک وہ خطہ ہے جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی خاک پاے مسلم کی ٹھوکریں کھارہی ہیں تو کبھی ریڑھی پر ردی والا اسے پانچ روپیے کلو میں خرید رہا ہوتا ہے، اس کے برعکس جوتیا ں شیشوں کے دلکش اور برقی قمقوں میں چمکتی بے حس آدم کی ذہنیت کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں ہم تین ہزار کے جوتی خرید کر شیخی بکھیرنے میں ثانی نہیں رکھتے، جبکہ تین سو کی کتاب خریدنا ہماری جان و جیب پر گراں گزرتی ہے،موبائل پکڑنا عزت اور کتاب پکڑنا عار لگتا ہے۔بازار میں جانا پسندیدگی کی علامت مگر کتب خانے میں جانا وقت کا ضیاء لگتا ہے، فیس بک پر گھنٹوں محو تو ہو سکتے ہیں مگر کتاب کا ایک صفحہ پڑھنے سے آنکھیں دکھیں تو پھر اس قوم کے افراد کے اس روپے پر نوحہ اور رویا ہی جا سکتا ہے۔
پاکپتن فقط ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک تاریخ کا رخشندہ باب ہے، شہر فرید بابا فرید کے نام سے عالم میں شہرت کا حامل شہر مگر کتب خانوں کے لحاظ سے ابتر حالت کا خماز ہے، اس کو ضلع بنے بھی بیس سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، آبادی ہزاروں سے لاکھوں کے ہندسوں کی حدوں سے نکل گئی مگر آج بھی یہ شہر کتب خانوں کی قلت کا شدید شکار ہے اس میں چند کتب خانوں کا احوال اور ان کی حالت زار اس معاشرے کی کتاب سے عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے، بابا فرید میونسپل لائبریری 10 جنوری 1954 کوموجودہ ریلوے روڈ پر جود میں آئی، اڑتیس سال یہ کتب خانہ وقت کی رفتار کے ساتھ تھکتا ہارتا لڑکھڑاتا بھاگنے کی سعی کرتا رہا حالات کے تھپیڑے کھاتا رہا 1989میں لائبریری کو بلدیہ ھال میں منتقل کر دیا گیا اس کتب خانے کی کتب پر وقت کی گر د پڑتی رہی اور صفحات پھٹتے رہے، خستہ حالت سے کتب کا دم گھٹتا رہا، 1981 سے 2000 تک یہ کتب خانہ اپنی زبوں حالی اور ویرانی کے رونے روتا رہا، آخرش مسٹر اعجاز حسین موجودہ لائبریری انچارج کی پہیم سعی سے ایک نئی عمارت نصیب ہوئی، جسکا سنگ بنیاد ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ ٹیم کے انچارج لیفٹینٹ کرنل فرحان اخترنے رکھا، شہر فرید کے فہم رکھنے والے افراد نے اینٹیں، سیمنٹ، نقدی، کمپیوٹر، کرسیاں، میزیں دے کر اس کی تکمیل میں میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح 31فروری 2001کو برگیڈیئر احمد چھٹہ کمانڈر ۱132وکاڑہ نے کیا اور اس کتب خانے کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے زیر انتظام کر دیا گیا۔
اس کتب خانے کا کل رقبہ17مرلے ہے جس میں 10 مرلے پر عمارت مشتمل ہے اکیسویں صدی میں یہ رقبہ لائبریری کے نام پر مذاق کے مترادف ہے اور کسی بھی کتب خانے کے لیے نا کافی ہے اس کتب خانے کے دو کمرے ہیں، ایک ریڈنگ ھال، سٹور، ریفرنس سیکشن موجود ہے، اقبالیات، سیرت النبی ﷺ، شاعری، سفر نامے، تاریخ، ناول، افسانوں کے بہترین نمونوں کو دلآویز انداز میں لائبریری میں رکھا گیا ہے، کتب خانے میں موجود کتب کی تعداد ۳۵۰۰۰کے لگ بھگ ہے روزانہ تیرہ اخبارات اردو انگریزی زبانوں میں اس کی زینت بنتے ہیں، پانچ کمپیوٹر کو انٹرنیٹ سے منسلک کر کے کتب خانے کو جدید یت کی راہ پر گامزن کرنے کی سعی کی جا رہی ہے،پانچ لوگوں کا سٹاف روزانہ کتب خانوں میں آنے والوں کو سروس فراہم کرنے میں سرکرداں ہے، ۶۰ کرسیوں میں بیشتر قاری کی منتظر رہتی ہیں، ۶۵ سال سے زائد عرصہ میں یہ کتب خانہ فقط دو سو ممبر ہی بنا سکا جو ہمارے معاشرے کی کتاب اور لائبریری سے بے اعتنائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پتھر کے زمانوں میں کتب کو صندوقوں اور زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھااور لوہے کی بڑی بڑ ی الماریوں میں حفاظت کے نام پر قفل لگاکر مقید کر لیا گیا۔وسائل کی کمی، سٹاف کی قلت، عوام کی عدم دلچسپی، حکومت کا عدم توجہ کا رویہ، فنڈ کی فراہمی میسر نا ہونا یہ سب کتب خانوں کی ویرانی کا سبب ہیں۔
یونیورسٹی آف لاہور پاکپتن کیمپس کی لائبریرین بشری ناز نے بتایا کہ لائبریری میں اس وقت چھوٹا سا کتب خانہ قائم ہے جو سٹوڈنٹ کی ضرورت کے لیے نا کافی تاہم اس کے لیے نئی لائبریری کی عمارت زیر تعمیر ہے ابھی ان کی کل کتب3500 کے لگ بھگ ہیں، اس کتب خانے کو لمز سوفٹ ویئیر سے منسلک کر کے کام چلایا جا رہا ہے۔
پاکپتن میں ایک اور نایاب کتب خانہ،بابا فرید لائبریری بھی ہے جو دربار کے ساتھ مسجد کے نیچے موجود ہے جو محکمہ اوقاف کے تحت ہے، اسکے موجودہ انچارج رانا تنویرنے بتایاکہ پنجاب میں کل اوقاف کے تین کتب خانے ہیں دو لاہور اور ایک پاکپتن میں ہے اس میں بابا فرید پر نادر کتب کا مجموعہ 2580جو زائرین اور عام عوام کے لیے مختصص ہے، بابا فرید پر تحقیق کرنے والے لوگ اس سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔حاجی اللہ دتہ انگلش ٹیچر بصیر پور آجکل اس کتب خانے سے اپنی پی ایچ ڈی کے لیے بابا فرید شناسی کی روایت کا تنقیدی جائزہ پر ریسرچ کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ گرلز کالج کتب خانے کی انچارج آصفہ خورشید سیال صاحبہ کے بقول ان کے کتب خانے میں کل10397کتب کا ذخیرہ موجود ہے جو 21000 طلبہ کی ضروریات کے کو پورا کر رہا ہے تاہم لائبریرین نا ہونے سے یہ کتب خانہ موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
گورنمنٹ فریدیہ پوسٹ گریجوائیٹ کالج کی کتب کا ذخیرہ ہ1400ہے ضلع کے تما م تعلیمی کتب خانوں سے زیادہ ہے، یہا ں پر بھی لائبریرین نا ہونے سے موجودہ دور کے کتب خانوں سے ہم آہنگ نہیں، پرنسپل رانا طارق عزیز ناصر کی کتب دوست پالیسی سے ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری کام کر رہی ہے اور اس کتب خانے کو پروفیسر بخت یا ر ظفر شعبہ کتب خانہ جات نے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کوہا سوفٹ ویئر پر آٹو میٹیڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔
عارف والامیں پاکپتن کی تاریخ کے سب سے پرانے کتب خانے گوررنمنٹ علامہ اقبال پبلک لائبریری کو دیکھا تو اسکی ابتر حالت سکوت ماتم کر رہا تھا۔ مسٹر شکیل قمر موجودہ انچارج کے مطابق اس کتب خانے کا باقاعدہ آغاز20 فروری1938کو سردار ہزارہ سنگھ نے اس کا افتتاح کیا تھا، جاہن برینڈر اس کے پہلے لائبریرین تھے،اس دور کی 3500نایاب کتب کوعملہ کی عدم توجہی سے دیمک چاٹ گئی اب اس کی 2000 موجودہ کتب کا ذخیرہ ہے اسی طرح عارف والا میں گوشہ ادب لائبریری تھی جو آج بلکل ختم ہو چکی ہے
گورنمنٹ پوسٹ گریجوائیٹ کالج عارف والا کے کتب خانے میں بھی لائبریرین موجود نہیں ایک پروفیسر کو اسکا چارج دیا گیا ہے اس کتب خانے کا کل ذخیرہ کتب 11000کے قریب ہے جو 1800 سے زائد طالبعلموں کو فوری اور جدید سہولیات دینے سے قاصر ہے۔
پاکپتن کے تمام سرکاری کتب خانے اکیسویں صدی کے، ڈیجیٹل لائبریری، وریچوئیل لائبریری، ملین بکس لائبریری،گوگل لائبریری، سوشل میڈیا لائبریری، الیکڑونکس لائبریری اور ایمازون کی شکل میں کتب خانے موجود ہیں، جہاں آن لائن، ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری لاکھوں کتب اور آرٹیکل مہیا کر رہی ہے وہاں یہ کتب خانہ اپنی ویب سائٹ سے بھی قاصر ہے، جہا ں دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے وہاں پاکپتن کی تمام لائبریریاں ریسورس شئیر کے نام سے بھی آشنا نہیں۔جہاں دنیا ہفتہ بھر کتب خانے چوبیس گھنٹے کھلے ہوتے ہیں یہاں دن کے اجالے میں تالے پڑے ہوتے ہیں، ہمیں ضرورت ہے سوچ بدلنے کی ہمیں ضرورت ہے رویے بدلنے کی، کتب خانوں میں انقلاب برپا کریں گے تو قوم انقلابی بنے گی اور ملک میں مکتب،معلم،طالبعلم اور کتب خانے آباد ہوں گے۔جس دن یہ قوم اس سے راز سے آشنا ہو گئی کہ ترقی کا راز کتب میں ہے اس دن یہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گا اور اسکی عوام کتب خانوں کی طرف رخ کرے گی، کتب خانے آباد ہوں گے۔

کتب خانوں کا معاشروں میں کرداراور ہمارا رویہ (محمد اکرم) Read More »

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ

ایک کتابی کیڑے دوست نے میری کاہلی اور سستی کو کانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور مشورہ دیا کہ اگر ضخیم کتابیں پڑھنا مشکل ہے تو چھوٹی کہانیاں ہی پڑھ لیا کرو۔ اس نے زور دیا کہ میں گلے کا ہار، آخری پتا، میگی کا تحفہ، رسی کا ٹکڑا اور ایک گھنٹے کی کہانی جیسے چند افسانے ضرور پڑھوں۔

دوست نے بتایا تھا کہ Story of an hour کا شمار دنیا کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جو ہماری زنگ آلود سوچ پہ چوٹ کرتی ہیں اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ کم بخت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ میں نے عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی آج بھی دل و دماغ اس کے سحر میں جکڑا ہے۔ دو اڑھائی صفحوں کی اس چھوٹی سی کہانی کے تقریبا ایک ہزار لفظوں میں ہزارہا صدیوں کے دکھ عیاں ہیں اور مجبوریوں کی لمبی داستاں کو سمیٹا گیا ہے۔

یہ مسز میلرڈ کی کہانی ہے جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ خبر ہے کہ اس کا خاوند ریل گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ مسز میلرڈ کی بہن اور رچرڈ (خاوند کا دوست) اسے افسوسناک خبر سنانے میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے فقروں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ خاوند کی موت کا سنتے ہی مسز میلرڈ رونا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دوسری منزل پہ واقع کمرے میں اکیلی چلی جاتی ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کرکھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے۔ باہر فطرت کے خوبصورت نظارے اور خوشنما زندگی نظر آتی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک غیر متوقع اور عجیب خوشی محسوس کرتی ہے۔ خدا سے اپنی لمبی زندگی پانے کی دعا مانگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند کی موت کا افسوس بھی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ آخری رسومات پہ پھوٹ پھوٹ کے روۓ گی۔ مسز میلرڈ کی بہن اوپر آتی ہے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہتی ہے۔ مسز میلرڈ بہن کے ساتھ نیچے چلی جاتی ہے۔

گھر کا مرکزی دروازہ کھلتا ہے اور اس کا خاوند مسٹر میلرڈ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاوند کر زندہ دیکھ کر مسز میلرڈ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اچانک خوشی موت کا سبب بنی۔

امریکی مصنفہ کیٹ چاپن (Kate Chopin) اس کہانی کی خالق ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی 1994 میں لکھی جو پہلی بار Dream of an Hour کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ کیٹ چاپن نے اپنے ناول The Awakening اور باقی کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی عورتوں کی مجبوریوں، استحصال اور حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈرن فیمنزم کی جڑیں Story of an Hour کے لفظوں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔

Kate Chopin

خاوند کی موت کے بعد مسز میلرڈ آزادی اور من چاہی زندگی کے سپنے کو پورا ہوتی دیکھتی ہے۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی اس کے آزاد و روشن مستقبل اور خوبصورت زندگی کی علامت ہے۔ کھڑکی سے نظر آنے والے ہوا کے دوش گھومتے روئی کے گالوں سے بادل، درختوں کی چوٹیاں جن سے بہار کے رنگ سبز پتوں کی صورت پھوٹے ہیں، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا گہرا نیلا آسمان، دور سے آتی کسی گانے کی مدھر لے، گلی سے اٹھتی زندگی سے بھرپور آوازیں، ہوا میں ملی بارش کی مہک اور موسیقی سے بھری چڑیوں کی چہچہاہٹ سب اس دل لبھانے والے جیون کا استعارہ ہیں جو خاوند کے ہوتے اسے نصیب نہ ہوا۔

یہ ہمارے معاشرے کی المناک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے مرد نے یہ کھڑکی بند کر رکھی ہے۔ خاوند کے جیتے جی بیوی ایسی زندگی نہیں جی سکتی۔ خاوند کی موت پہ مسز میلرڈ بار بار سرگوشی کرتی ہے۔ ‘ آزاد، جسم اور روح آزاد ہو گئے‘

کیٹ چاپن کے نزدیک ایک عورت کے لیے خاوند سے چھٹکارا پانا اہم نہیں بلکہ ایسی زندگی کی اہمیت ہے جس کی وہ خود مالک ہو۔ کیٹ چاپن مسز میلرڈ کی خوشی کی وجہ لکھتی ہیں۔

 آنے والے برسوں میں وہ کسی دوسرے کے لیے نہیں جیے گی، اپنی زندگی اپنے لیے جیۓ گی۔ اس کی مرضی کو کسی دوسرے شخص کی مرضی توڑ مروڑ نہیں سکے گی۔‘

انیسویں صدی کے آخر میں جب یہ کہانی لکھی گئی تو امریکی معاشرے میں اس کو خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ کہانی صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے وقت سے پہلے لکھی گئی۔ ہمارے ملک میں شاید ایسے خیالات کو آج بھی بہت سارے لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔

 

میلرڈ خاوند کے بعد ایک نئی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے۔ یہ خواب اتنا دلکش ہے کہ وہ دعا مانگتی ہے کہ وہ لمبی زندگی جیے اور آزادی کے احساس کا لطف زیادہ عرصہ اٹھا سکے۔ ایسا خواب اور ایسی دعا پہلی بار اس کی زندگی میں آئے تھے۔ ہم کہانی میں دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کا یہ خواب تعبیر کی منزل نہیں پاتا نہ ہی اس کی دعا شرف قبولیت حاصل کر پاتی ہے۔ بلکہ ایک گھنٹے کے اندر ہی سہانی زندگی جینے کا خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق مسز میلرڈ کی موت خاوند کو زندہ دیکھنے کی اچانک خوشی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن کہانی پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت خاوند کو زندہ دیکھنے کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاوند ہی بیوی کی خوشی کی زندگی جینے میں رکاوٹ ہے۔

ڈاکٹرز کا موت کی غلط اور متضاد وجہ کی تشخیص معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے کہ ہم عورت سے متعلقہ معاملات کو غلط رنگ دیتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ شاید خواتین کے دکھوں کے پیچھے کارفرما اصل وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مسز میلرڈ کی کہانی میں کیٹ چاپن کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی پڑتا ہے۔ کیٹ چاپن کے خاوند کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کی ماں اور گھریلو عورت کو روزی روٹی کمانے کے لیے ایک آرٹسٹ اور قلم کار کا رول اپنانا پڑا تھا۔ کیٹ چاپن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ کامیاب لکھاری بن گئیں۔ یہ کہانی بھی عورت کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا پیغام دیتی ہے۔

اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو دیکھنے میں خوش ذائقہ نظر آتا ہے اور چکھنے پہ کڑوا ثابت ہوتا ہے۔ جو بھی کھاۓ، وہ پچھتاۓ۔ شادی شدہ عورت کے پاؤں میں پڑی سخت مجبوریوں، بے شمار ذمہ داریوں اور بے جا پابندیوں کی زنجیریں جان لیوا ہیں۔ شادی کے بعد مرد باہر کام کرتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ لہذا گھر سے باہر کے تمام مواقع عورت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ عورت نے آگے بڑھنے، دنیا میں اپنا مقام بنانے، روشن مستقبل کے حصول اور زندگی کو انجواۓ کرنے کے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چار دیواری ہی میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ مسز میلرڈ بیوی کے ایسے ہی پراسرار رول میں پھنسی نظر آتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے کڑے مطالبات ہیں جن کے پاٹوں میں عورت پسی چلی جاتی ہے۔

Story of an hour میں رونا دھونا کافی ملتا ہے۔ کہانی کی ہیرؤئن خاوند کی موت پہ روتی ہے۔ جب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تب بھی ڈسکارے بھرتی رہتی ہے۔ پھر جب اپنے خیالوں میں خاوند کے جنازے میں شریک ہے پھر بھی رونے کا ذکر ملتا ہے۔ خیالوں ہی میں خاوند کو دفنانے کے بعد رونے کا ذکر نہیں آتا۔ اس کا رونا دھونا تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک خاوند اس دنیا میں موجود ہے۔

مسز میلرڈ دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور یہ عارضہ بھی خاوند کی عطا معلوم ہوتا ہے۔ اور کہانی کے آخر پر خاوند ہی جان لیوا صدمے کی وجہ بنتا ہے۔ یہی عارضہ اس کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے ہی ناسور جو عورت کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، وہ معاشرے کی عطا ہیں۔

یہ کہانی امریکی مصنف Charlotte Perkins Gilman کی کہانی The Yellow Wallpaper سے بھی ملتی جلتی نظر آتی ہے جس میں ایک عورت اس قید اور پابندیوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے شوہر نے اس پہ مسلط کی ہیں۔

یہ کہانی ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی پکار ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ موت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ موت سے پہلے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ خواتین کے لیے اس کہانی میں نصیحت ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ کیٹ چاپن اپنے ناول The Awakening میں لکھتی ہیں۔

“مجھے ہمیشہ ان خواتین پہ افسوس ہوتا ہے جو چلنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سارے زندگی کے چھوٹے چھوٹے نایاب نظاروں سے محروم رہتی ہیں۔”

کیٹ چاپن کی اس چھوٹی سی کہانی میں کتنی بڑی بڑی باتیں کی گئی ہیں۔

 

ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ(پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »

کالے جسموں کی ریاضت (پروفیسر احمد نعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

کالے جسموں کی ریاضت

فیس بک پہ کتاب کا سر ورق شاید پبلشرز نے شئیر کیا تھا۔ کتاب کا نام اتنا دلکش تھا کہ نظریں ایک دم سے اٹک گئیں۔ ’کالے جسموں کی ریاضت‘۔ کیا خوبصورت عنوان ہے۔ کالے جسموں کی صدیوں پہ محیط ریاضت کا درد سرورق سے چھلک رہا تھا۔ ترجمہ کرنے والوں کے نام درج تھے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور جاوید دانش۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے کئی کالم ’ہم سب‘ پہ میں پڑھ چکا تھا۔ ان کی انسان دوستی، محبت، رواداری، مثبت سوچ، حق گوئی، انصاف پسندی اور زندگی کو جی بھر کے جی لینے کی آرزو جیسی خوبیوں سے بے حد متاثر ہوا۔ وہ ماہر نفسیات، دانشور، افسانہ نگار، شاعر، کالم نگار اور محقق ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر انسانوں سے محبت کرنے والے۔ یقیناً ان کا انتخاب خوبصورت ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سوچ کر فوری واٹس ایپ نمبر پہ کتاب منگوانے کا آرڈر دے دیا اور دو تین دنوں میں کتاب کراچی سے پاکپتن آ پہنچی۔ وہ بھی صرف 430 روپے بمعہ ڈاک خرچ میں۔

افریقی ادب میں وہ سارے مسائل گندھے نظر آتے ہیں جن کا سامنا سیاہ فام نسل کے لوگ کرتے آئے ہیں۔ اس کتاب میں بھی کہیں غلامی کی بے رحم زنجیروں میں جکڑے کالے جسم نظر آتے ہیں جو آزادی اور برابری سے زندہ رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔ کہیں ان زخموں سے چور جسموں پہ نسلی امتیاز کے کوڑے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں غربت اور بھوک کی آندھیاں چنگھاڑ رہی ہیں تو کہیں قحط، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری، احساس محرومی اور ظلم کے گہرے سائے چھائے ہیں۔

سیاہ فام ادیبوں کے ادب پاروں میں آزادی کی تمنا سانس لیتی نظر آتی ہے۔ نسلی امتیاز کے خلاف پر زور احتجاج ہے جو آسمان کا سینہ بھی چاک کر دیتا ہے۔ انصاف اور احترام آدمیت کی التجا ہے جو مردہ دلوں پہ جمی برف کی دبیز تہہ پگھلا دیتی ہے۔ روشن صبح کے لیے جدوجہد ہے جو گھور اندھیری رات کو بھی شان سے جی لینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ ادب پارے ایک آئینہ ہیں جس میں گورے لوگ اپنا چہرہ دیکھ کے پانی پانی ہو جائیں۔

افریقی ادب کے یہ شہ پارے پڑھنے سے قاری کی سوچ کو نئی وسعتیں عطا ہوتی ہیں۔ کالے جسموں کی طویل اور سخت ریاضت سے اٹھتی درد کی ٹیس کو وہ محسوس کرتا ہے۔ آزادی اور انصاف کی قدرو قیمت سے شناسائی ملتی ہے۔ زندگی کو بہتر طریقے سے جینے کا درس ملتا ہے۔ ژاں پال سارتر کے نزدیک ’انسان کو سمجھنے کے لیے انسان کی تباہی کی کہانی اور ظلم کے قصے کو سمجھنا بہت ضروری ہے‘۔ لہذا کتاب میں موجود ظلم کی داستانیں ہمیں انسان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر کی کتاب ’وٹ از لٹریچر‘ کے باب ’بلیک آرفیس‘ کا اردو ترجمہ ’دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس میں خوبصورت خیالات ہیں جن کی ایک چھوٹی سی جھلک دیکھیے۔

’سفید فام لوگون نے ہر چیز کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا۔ اپنی جلد کی سفیدی کو ایک خاص رنگ دیا۔ انہوں نے سفیدی کو دن، حسن، سچائی، نیکی اور ایسی روشنی سمجھا جو زندگی کی تاریکیوں کو اجاگر کر دیتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ کالے لوگ اعتماد سے کھڑے ہو گئے ہیں اور کالی روشنی سے ماحول کو منور کر رہے ہیں۔ ‘

’وہ (سیاہ فام ادیب) سیاہ رات کو صرف گناہ اور محرومی کی علامت ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسے جدوجہد کی علامت بھی بناتے ہیں۔ ایسی جدوجہد جس کی کوکھ سے صبح طلوع ہو گی۔ ‘

سارتر مزید لکھتا ہے کہ ’سیاہ فام شاعر اپنی نظموں کی فضا میں الفاظ ایسے اچھالتا ہے جیسے آتش فشاں پہاڑ کے دہانے سے پتھر نکلتے ہیں۔ اور وہ الفاظ کے پتھر یورپ اور کلونیلزم کی عمارت کو مسمار کرتے رہتے ہیں‘۔

’وہ ایک ایسے مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جہاں انسان انسانیت کے ناطے سے پہچانے جائیں گے نہ کہ جلد کی رنگت کی وجہ سے‘۔

مضمون کے آخر پر سارتر سیاہ فام لوگوں کی حوصلہ افزائی کچھ یوں کرتا ہے
’اے سیاہ فام لوگو
اپنی جدوجہد تیز کر دو
اتنا زور سے چیخو کہ
دنیا کی بنیادیں ہل جائیں‘

اس سے قبل میں نے مشہور ناول ’تھنگز فال اپادٹ‘ پڑھا ہوا تھا جو نائجیریا کے سیاہ فام ادیب چنوا ایچی بی کی شاہکار تخلیق ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی شہرہ آفاق تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ کا متن بھی پڑھا ہوا تھا۔ اور اب ’کالے جسمون کی ریاضت‘ میں افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ کے نامور سیاہ فام ادیبوں کے فن پارے پڑھنے کا موقع ملا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب سیاہ فام ادیب اتنے زور سے چیخے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سارتر کی روح کو خوشی ملی ہو گی۔

افریقی شعراء کی خوبصورت لطیف خیالات سے لبریز  نظمیں ہیں جو ڈاکٹر خالد سہیل نے ترجمہ کی ہیں۔ برناڈ ڈاڈی کا تعلق کوٹے ڈی آئیوری سے ہے جو مشہور شاعر،   ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انہوں نے فرانسیسی استعماریت کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی باکمال اور عالمی شہرت یافتہ نظم ’اے خدا تیرا شکر ہے‘ بھی کتاب کا حصہ ہے۔

  ’اے خدا تیرا شکر ہے
کہ تو نے مجھے کالا پیدا کیا
میں ساری دنیا کے دکھ اور غم اپنے کندھوں پر لیے پھرتا ہوں
میں کالی رات میں اتنے قہقہے لگاتا ہوں
کہ وہ صبح کا روپ اختیار کر لیتی ہے‘

نائیودا اوساہون کی ایک نہایت جاندار نظم ’ایک سادہ کالا آدمی‘ ہے جس کے تیز دھار الفاظ قاری کے دل میں بہت گہرے اترتے چلے جاتے ہیں۔ سیاہ فام درد کی جس چکی میں پستے ہیں وہ درد بھی عیاں ہے۔   نظم کا ٹکڑا پڑھیے۔

’اگر
ایک چور
تمہاری ماں، بیوی اور بیٹی سے زنا بالجبر کرے
تمہیں بے دردی سے مارے
اور تمہارے مال و دولت سمیت فرار ہو جائے
اور
برسوں بعد
جب پولیس اسے نہ پکڑ پائی ہو اور قانون نے اسے سزا نہ دی ہو
اور وہ تمہیں پارٹی میں مل جائے
تو تم کیا کرو گے؟
کیا اسے معاف کر دو گے اور بھول جاؤ گے؟
اگر ایسا ہے تو تم ایک سادہ کالے آدمی ہو‘

جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور سیاہ فاموں کی آزادی کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے نیلسن منڈیلا کے چند خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

نائجیریا کے نوبل انعام یافتہ ادیب وول سونیکا کا ڈرامہ ’دلدل کے باسی‘ میں جنوبی نائجیریا کے پسماندہ دیہاتی زندگی کے کردار سخت مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک نا امیدی سی چھائی ہے۔ کوئی ایسا مشکل کشا بھی نہیں جو مصائب بھری زندگی میں مدد کر سکے۔ کوئی قحط اور پانی کی کمی کے مارے ہیں تو کوئی پانی کی زیادتی سے تباہی کی دلدل میں ہانپ رہے ہیں۔

’فقیر:  ساری محنت ٹڈی دل کے ایک حملے سے صاف ہو گئی۔ پھر میں گھر سے نکلا اور لوگوں کو آواز دینے لگا کہ کوئی مجھے دریا کا راستہ بتا دے۔ ایک راہگیر نے پوچھا کون سا دریا۔ میں نے کہا کسی بھی دریا یا ندی کی طرف میرا منہ کر دو۔ مجھے پانی کے قریب رہنا ہے۔ کیوں کہ اب میں سوکھے سے بیزار ہو چکا ہوں۔ ‘

  ’ماکوری:  کبھی کبھی دیوتاؤں سے بھی بانٹنے میں بھول ہو ہی جاتی ہے۔ وہ ہر ایک کو ایک طرح سے نہیں بخشتے۔ ‘
ارنی ڈنگو کی نظم ’ایک خیال‘ ایک اچھوتا خیال پیش کرتی ہے۔
’ہم سیاہ فام لوگوں کی خدمات
چاند کے تاریک پہلو کی طرح ہیں
جو موجود تو ہے
لیکن
اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ‘

امریکی مصنف اورسماجی کارکن مایا انجیلو کا ایک مضمون ’ڈینٹسٹ اور ماما‘ ایک درد بھری داستان بیان کرتا ہے۔ جس میں مایا کی نانی اس کا دانت نکلوانے گورے ڈینٹسٹ کے پاس لے جاتی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ وہ ایک کتے کے منہ میں ہاتھ ڈال لے گا لیکن ایک نگر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ ایک کم عمر بچی اپنی نانی اور ڈینٹسٹ کی نسلی کشمکش کو کیسے دیکھتی ہے یہ دلچسپی کا ساماں ہے۔ بچی تخیل میں دیکھتی ہے کہ اس کی نانی نےگورے ڈینٹسٹ اور گوری نرس کی خوب دھلائی کی ہے اور ان پہ حاوی آ گئی ہے۔ یہ ایک سیاہ فام بچی کا خواب ہے حقیقت نہیں۔

یہ مضمون مایا انجیلو کی سوانح عمری کی پہلی کتاب ’I know why the caged bird sings‘ سے لیا گیا ہے۔ اس میں مایا نے تین سال سے سولہ سال تک کے اپنے حالات قلم بند کیے ہیں۔

اس میں ’مایا‘ ہر سیاہ فام امریکی لڑکی کی علامت بن جاتی ہے۔ قیدی پرندہ بھی سیاہ فام لوگوں کی علامت ہے جو گوروں کے بنائے قانون کے پنجرے میں پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں۔   مایا انجیلو نے کتاب کا ٹائٹل سیاہ فام امریکی شاعر پال لارنس ڈنباز کی نظم سے لیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’میں جانتا ہوں قیدی پرندہ کیوں گاتا ہے۔ یہ خوشی کا گیت نہیں گاتا ہے۔ بلکہ یہ زخمی دل کی پکار ہے جو وہ آسمان کی طرف اُچھالتا ہے‘۔

زہرا ہرسٹن امریکی سیاہ فام ادیب تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتداء میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی۔ ایک دفعہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے پکڑی گئیں تو اس نے جج کے سامنے یہ توجیہہ پیش کی  ’میں نے سفید فام لوگوں کو سبز بتی پر سڑک پار کرتے دیکھا تو سمجھی کہ سرخ بتی کالوں کے لئے ہے‘ زہرا ہرسٹن کا ایک خوبصورت مضمون ’سیاہ فام ہونے کا احساس‘ کتاب کی زینت بنا ہے۔   زہرا ہرسٹن لکھتی ہیں۔

”میں نیگروز کے اس طبقہ فکر کی ممبر نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے انہیں کالا پیدا کر کے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ میں نے اپنی بے ترتیب زندگی میں جلد ہی یہ معلوم کر لیا تھا کہ اس دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔   چاہے اس کی جلد کالی ہو یا گوری“۔

”بعض اوقات مجھے احساس ہوتا ہے کہ لوگ میرے کالے ہونے کی وجہ سے مجھ سے دور رہتے ہیں۔ مجھے اس وقت غصہ نہیں آتا۔ حیرانگی ضرور ہوتی ہے کہ وہ لوگ کیوں کر میری دلچسپ قربت سے اپنے آپ کو محروم کرتے ہیں۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے“۔

لوک کہانی ’لوگ جو اڑ سکتے تھے‘ ایسی کتھا ہے جو دل و دماغ کو ہلا دیتی ہے۔ افریقی لوگ غلامی سے ہر قیمت آزادی چاہتے ہیں۔ کچھ نے گورے آقاؤں کی حکم عدولی کی اور مارے گئے۔ کچھ فرار ہو کر سمندر میں گھس گئے تا کہ افریقہ واپس جا سکیں۔ جانوں سے تو گئے مگر غلامی سے آزاد ہو گئے۔ کچھ منتر پڑھ کر اڑ جاتے ہیں اور واپس افریقہ اپنے آبائی علاقوں میں جا اترتے ہیں۔   لوگ بھلا کبھی اڑے ہیں۔   اُن کے تو پنکھ ہی نہیں ہوتے۔   ہاں مگر کہانی میں ضرور اڑ سکتے ہیں۔ کہانی میں تو سیاہ فام غلامی میں پسے لوگوں کی آزادی کی آرزو صاف نظر آتی ہے۔ کاش وہ قسمت کے مارے سچ میں اُڑ سکتے۔

مارٹن لوتھر کنگ کی عظیم جدوجہد کا مختصر تعارف بھی ہے اور ان کی جاندار تقریر ’میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘ کا کچھ حصہ بھی۔   یہ تقریر 28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں دو لاکھ پچاس ہزار کے مجمعے میں کی گئی۔

’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن جارجیا کے سُرخ پہاڑوں پر آقاؤں اور غلاموں کے بیٹے ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے‘
’میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن میرے چاروں بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں اُن کا کردار اُن کی جلد کے رنگ سے زیادہ اہم ہو گا‘

’کالے جسموں کی ریاضت‘ افریقی ادب کا خوبصورت گُلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول ہیں۔   ان پھولوں سے دل لُبھانے والی مہک بھی ہے اور درد اور دُکھوں کے قطرے بھی ہیں جو لہو کی طرح ٹپک رہے ہیں۔

کتاب کے حوالے سے ایک شکوہ بھی ہے کہ اس کے صفحات کم ہیں۔ ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے اور پھر افریقی ادیبوں کا تعارف بھی ہونا چاہئیے تاکہ ان سے بہتر شناسائی ہو سکے۔   کچھ نظمیں ایسی بھی درج ہیں جن پہ اُن کے خالقوں کے نام تک درج نہیں۔ قاری کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کسی سیاہ فام ادیب کی تخلیق کردہ ہیں یا پھر ان کے خالق ڈاکٹر خالد سہیل خود ہیں۔

کتاب کا انتساب پڑھ کے دل خوش ہو گیا۔   ارے واہ۔   اس سے بہتر انتساب نہیں ہو سکتا۔
کالے قلمکاروں کے سنہرے افکار
اور
روشن مستقبل کے نام۔

کالے جسموں کی ریاضت (پروفیسر احمد نعیم چشتی) Read More »

کوک فریدا کوک (پروفیسر احمد ںعیم چشتی)

پروفیسر احمد نعیم چشتی

کوک فریدا کوک

صدیوں پہلے پاکپتن اجودھن ہوا کرتا تھا۔ تیرہویں صدی میں صوفی بزرگ بابا فریدالدین گنج شکر اجودھن آئے تو اسی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ستلج کنارے آباد اس بستی پہ بابا فرید کا ایسا رنگ چڑھا کہ اس نے اجودھن نام کی پرانی اوڑھنی اتار پھینکی اور ’پاک پتن‘ نام کا چولا پہن لیا۔ تب سے اب تک اس چھوٹے شہر کی بڑی پہچان یہی ہے کہ یہاں سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ بابا فریدالدین کا آستانہ ہے۔ ملک کے طول و عرض سے ہزارہا زائرین پورا سال پاک پتن درگاہ بابا فرید گنج شکر پہ حاضری دینے آتے رہتے ہیں۔ ہر سال پچیس ذوالحج سے دس محرم تک آپ کے عرس کی تقریبات پاک پتن میں منائی جاتی ہیں۔ پانچ سے دس محرم عرس اپنے عروج پہ ہوتا ہے۔ انڈین پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں بھی بابا فرید کی یاد میں ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتے عرس منایا جاتا ہے۔ ہندو، سکھ اور مسلمان ٹلہ بابا فرید جی پہ آتے ہیں، دیے جلاتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ پہلے وہ شہر بھی موکلہار کہلاتا تھا۔ بابا فرید الدین وہاں کچھ دن ٹھہرے تو وہ شہر ’فرید کوٹ‘ ہو گیا۔

پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کا سات سو چھہترواں عرس منایا جا رہا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے زائرین امڈ آئے ہیں۔ شہر کی گلیوں، سڑکوں اور حویلیوں میں آدم ہی آدم دکھائی پڑتا ہے۔ پاک پتن پہلے سا شہر نہیں رہا گویا بھیس بدل لیا ہو اور اصل چہرہ چھپا لیا ہو۔ گاڑیوں کا رش، شور مچاتے انجن، دھوئیں کے بادل اور ہارن کی پیں پیں پاں پاں۔ ریلوے لائن کے ساتھ، سڑکوں کے کنارے اور خالی جگہوں پہ گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ ہم پاکپتن والوں نے بھی خالی جگہوں کو پارکنگ لاٹ بنا دیا ہے۔ پیسے وصولتے ہیں تب گاڑی کھڑی کرنے دیتے ہیں۔ دوسرے شہروں سے آئے زائرین نے مکان کرائے پہ لے لیے ہیں۔ ہم عرس کے دنوں میں کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ چند دن کا کرایہ ہزاروں روپے بنا لیتے ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار وسل بجاتے رہتے ہیں۔ خوب رونق ہے۔ جا بجا دیگیں پک رہی ہیں۔ لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔ حویلیوں، ڈیروں اور خانقاہوں میں قوالی کی محفلیں سجی ہیں۔ ہر قوال کو سامعین میسر ہیں جو قوالوں پہ نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ نوٹ اڑتے ہیں تو فنکاروں کے رگ و پے میں جوش بھر جاتا ہے۔ طبلے کی تھاپ، ہارمونیم سے نکلتے سر، ہمنواؤں کی تالیاں، آنکھ موندے جھومتے سامعین اور دھمال ڈالتے ملنگ۔ محفل سما پہ جوبن آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عالمی شہرت یافتہ فن قوالی کے بیج پاک پتن درگاہ بابا فریدالدین پہ پروان چڑھے۔ پاکپتن نے کئی نامور قوال گھرانے پیدا کیے۔ نصرت فتح علی خان، بدر میانداد، صابری برادران سمیت قوالی کے بڑے نام پاک پتن کو اپنی روحانی درسگاہ مانتے اور یہاں پرفارم کرنا سعادت گردانتے۔

عرس شروع ہوتے ہی شہر میں کاروبار انگڑائی لے کے اٹھ بیٹھتا ہے اور کاروباری لوگ یوں جاگ جاتے ہیں کہ دن رات سوتے ہی نہیں۔ جگہ جگہ نئے اسٹالز اگ آتے ہیں۔ دکانیں برقی قمقموں سے سجائی جاتی ہیں۔ ہر سو چائے کے کھوکھے کھلے ہیں۔ برفی، چم چم، توشہ اور گلاب جامن کی ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔ دہی بھلے، برگر، آلو چاٹ، سموسے پکوڑے، مکئی کے بھٹے، دال چاول، لڈو پیٹھیاں غرض کہ سب کھانے کو دستیاب ہے۔ بے روزگار نوجوانوں نے عرس کے دنوں مکھانے اور شکر کی ریڑھیاں لگا لی ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران سب آباد ہو چکے ہیں۔ شام ہوتے ہی جو بازار اونگھنے لگتے تھے اب رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔
اٹھ فریدا ستیا جھاڑو دے مسیت
توں ستا رب جاگدا، تیری ڈاہڈے نال پریت (بابا فرید)

ڈھولچی گلیوں بازاروں میں ڈھول بجاتے پھرتے ہیں۔ زائرین جماعتوں کی شکل نذرانہ چڑھانے دربار کی طرف رواں ہیں۔ سرخ، سبز اور نیلے پیلے چولے پہنے ملنگ دھمالیں ڈالتے ہیں۔ لمبے بکھرے بال، ننگے پاؤں، الجھی داڑھیاں، انگلیوں میں رنگ برنگے نگوں کی انگوٹھیاں پہنے، شوخ رنگ کے کپڑے سے کمر کسے، عقاب پروں سے ہاتھ پھیلائے یہ خرقہ پوش ناچتے ہیں۔ یہ کسی اور دنیا کے واسی دکھتے ہیں۔
کالے میڈے کپڑے کالا میڈا ویس
گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہیں درویش (بابا فرید)

انچ محرم کو بہشتی دروازہ کھلتا ہے۔ بابا فرید الدین کے حجرے کے جنوبی دروازے سے لوگ قطار باندھ کے داخل ہوتے جاتے ہیں اور مشرقی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پورا سال یہ دروازہ بند رکھا جاتا ہے۔ پانچ سے دس محرم کھولا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بابا فرید گنج شکر کے مرشد نے فرمایا تھا کہ جو فرید کے در سے گزرے گا امان پائے گا۔ اب ہر سال ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں۔ امان پانے کی تمنا، بہشت کے حصول کی آرزو، بابا فرید سے محبت یا پھر ثقافتی سرگرمی میں حصہ لینے کی خواہش محرک کوئی بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد حق فرید یا فرید کے نعرے بلند کرتی بہشتی دروازے سے گزرتی ہے۔ درگاہ اس فلک شگاف نعرے سے گونجتی رہتی ہے
اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید۔

ریلوے پھاٹک سے دربار تک میل بھر لمبی قطار باندھے لوگ بہشتی دروازہ گزرنے کے لیے عصر سے پہلے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دروازہ رات آٹھ بجے کھولا جاتا ہے۔
بہشتی دروازہ گزرنے والےدو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ اور خاص لوگ۔ خاص لوگوں کے لیے خاص انتظامات ہوتے ہیں۔ ان میں درگاہوں کے گدی نشین، سیاستدان، زمیندار، کاروباری امراء، سرکاری عہدے داران وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ قطار میں کھڑے ہونا ان کی شان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کے لیے ڈی پی او آفس سے وی آئی پی کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ راستہ ہوتا ہے جہاں ان کو روکا نہیں جاتا۔ دھکم پیل نہیں ہوتی۔ امیر آدمی ہوتے ہیں لہذا پولیس کی بڑھکیں اور ڈنڈے ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔ گاڑیوں کے لیے بھی خصوصی پاس جاری ہوتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھیے اور مزے سے بلا روک ٹوک ٹور کے ساتھ جائیے۔ قطار باندھنا تو غریبوں کا شیوہ ہے۔

عام لوگوں کی لمبی قطار لگی ہے۔ ان کے پاس نہ گاڑی نہ وی آئی پی کارڈ۔ نہ کوئی پولیس اہلکار دوست ہے۔ وہ دیہاتوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ سہ پہر سے ہی گرمی میں کھڑے ہیں۔ پولیس اہلکار ڈنڈے لہرا کر ان کو قابو میں رکھتے ہیں۔ پھر بھی گڑ بڑ کریں تو ڈنڈے برسا کر دماغ ٹھکانے رکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے پیسہ نہیں کمایا، گاڑیاں نہیں لیں، اثرو رسوخ والے نہیں اور نہ ہی کسی بڑے باپ کے گھر پیدا ہوئے۔ ارے کچھ بھی نہیں کیا تو پھر ریلوے پھاٹک پہ لگ جاؤ لائن میں۔ چلو شاباش!
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک (روٹی)
جے لبھے نہ چھیواں پنجے ای جاندے مک (بابا فرید)

کئی سال قبل بہشتی دروازے سے گزرتے بھگدڑ مچی تھی اور کئی افراد جان سے گئے۔ سات سال پہلے درگاہ کے مرکزی دروازے پہ بم دھماکہ ہوا تھا جس میں سات جانیں چلی گئیں تھیں۔ پھر بھی لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ موت زندگی کا راستہ روکنے میں ناکام ٹھہری۔ زندگی کا دھارا بہت حوصلہ رکھتا ہے۔ ہر پل بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ بابا فرید سے پریت نبھانے والے پل بھر کے لیے نہیں ٹھٹھکے۔
فریدا ایسا ہو رہو جیسا ککھ مسیت
پیراں تلے لتاڑئیے کدی نہ چھوڈیں پریت (بابا فرید)

عرس پہ پنجاب بھر سے پولیس اہلکار ڈیوٹی پہ آتے ہیں۔ شہر کے سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔ سکولوں میں نفری کی رہائش کابندوبست ہوتا ہے۔ طالب علموں اور اساتذہ کو عرس کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ چھٹیاں جو ملتی ہیں۔ مزے سے میلہ دیکھو۔ تنخواہ بھی وصول پاؤ۔

عرس پہ کبھی لکی ایرانی سرکس لگتا تھا۔ اتنا رش ہوتا تھا کہ ٹکٹ لینے کے لیے تگڑے پہلوان نما شخص کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ وہ بھی جب سب دوستوں کی ٹکٹیں اپنے زور بازو پہ جم غفیر کو چیر کے خرید لاتا تو اس کی قمیض کا گھیرا پھٹ چکا ہوتا یا چاک گریبان لوٹتا۔ موت کا کنواں لگتا تھا جس میں خواجہ سرا ناچتے تھے اور بعد میں کار یا موٹر سائیکل کی خطرناک کرتب دکھائے جاتے تھے۔ بہت سارے لاؤڈ اسپیکرز پہ گانے بج رہے ہوتے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اکھاڑے اور تھیٹر میں لائیو پرفارمنس ہوتی تھی۔ کچی ٹاکی فلمیں چلتی تھیں۔ مختلف کھیل تماشے لگتے تھے۔ طرح طرح کے جھولے ہوتے۔ سب لوگ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو کچھ دیر بھلا کر ہنس لیتے تھے۔ لیکن جب سے دہشت گردی کا مکروہ کھیل شروع ہوا وہ میلہ اجڑ گیا۔ موت کے اس بھیانک کنویں میں زندگی کا سرکس ویراں ہو گیا۔ اب نہ ٹکٹ بکتے ہیں اور نہ گاؤں کے پہلوان میلہ دیکھنے آتے ہیں۔

حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کو پنجابی کا پہلا شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ آپ کے اشلوک سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ آپ کے فلسفے کی چھاپ آٹھ صدیوں کے بعد بھی اتنی گہری ہے کہ آج بھی پاک پتن میں لوگ اپنے بچوں کے نام بابا فرید کی نسبت سے رکھتے ہیں۔ غلام فرید نامی لوگ اس نسبت کا ثبوت ہیں۔ آج بھی شہر میں جا بجا دکانوں، کالج، لائبریری، مساجد، مدرسے، میرج ہال اور فیول پمپ بابا فرید کے نام سے جڑے نظر آتے ہیں۔ شہر کا اکلوتا کالج فریدیہ کالج ہے۔ بابا فرید گنج شکر نے انسان کو اولین ترجیح دی۔ سب انسانوں سے محبت کی۔ کسی بھی شخص کو مذہب، عقیدے یا فرقے کی بنا پر دھتکارا نہیں۔ لوگوں کو محبت اور امن کا درس دیا۔ رواداری اور بھائی چارے کا جو سبق بابا فرید نے پڑھایا اس کا درس آج بھی ان کے آستانے پہ جاری ہے۔ ان کے آستانے پہ تمام مذاہب اور عقائد کے لوگ آتے ہیں۔ آج بھی ان کے آستانے پہ محبت اور امن و آشتی کے اس عالمگیر احساس کا سایہ ہے جو بد قسمتی سے ملک کے گلی بازاروں میں نظر نہیں آتا۔ ان کی درگاہ پہ سنی، شیعہ، وہابی، سکھ، ہندو، مسلمان کی تفریق نہیں ہوتی۔ معاشرے کی اتنی بڑی خدمت اور کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔

کوک فریدا کوک توں جیوں راکھا جوار
جب لگ ٹانڈہ نہ گرے تب لگ کوک پکار (بابا فرید)

کوک فریدا کوک (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی)

Prof. Ahmad Naeem Chisti

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی

’چھانگیا رکھ‘ بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی ہے جو سن دو ہزار دو میں پنجابی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متعدد زبانوں میں تراجم کیے جا چکے ہیں۔ دو ہزار دس میں آکسفورڈ پریس نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یوں ’چھانگیا رکھ‘ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی۔

’چھانگیا رکھ‘ کو ’دلت لٹریچر‘ میں اہم مقام حاصل ہے۔ دلت لٹریچر میں ہندوستان کے اچھوت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ دلت لٹریچر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی پکار ہے۔

بلبیر مادھوپوری ہندوستان کے ضلع جالندھر کے گاؤں مادھو پور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاعر ہیں۔ پنجابی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ مترجم اور محقق بھی ہیں۔

بلبیر مادھوپوری نے کتاب کا عنوان بہت خوبصورت چنا ہے۔ ’چھانگیا رکھ‘ ! پنجابی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسے درخت کو کہتے ہیں جسے چھانگ دیا گیا ہو۔ جس کی ٹہنیاں اور شاخیں کلہاڑی سے کاٹ دی گئی ہوں۔ چھانگیا رکھ دوسرے درختوں سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔ قدرتی پیڑوں والی خوبصورتی اور کشش سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ٹنڈ منڈ سا ہو جاتا ہے۔ چھانگیا رکھ دلت کمیونٹی، نچلے اور مظلوم طبقے، حتی کہ ہر مظلوم شخص کی علامت بنتا ہے جنہیں آزادی اور عزت کے ساتھ جینے نہیں دیا جاتا۔ سماج میں ان کو پنپنے کے مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں آتے۔ ان کو چھانگیا رکھ بنا دیا جاتا ہے۔

بلبیر مادھوپوری کا چھانگیا رکھ جہاں مظلومیت کا استعارہ ہے وہاں یہ مزاحمت، نئی زندگی اور ترقی کا بھی استعارہ ہے۔ کیونکہ پیڑ کو جب چھانگا جاتا ہے تو پھر اس پہ نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز اور دلکش ہوتی ہیں۔

چھانگیا رکھ میں بلبیر مادھوپوری نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی دکھائی ہے۔ وہ کٹھن حالات دکھائے ہیں جن سے اس کا خاندان گزرا۔ یہ ایسے طبقے کی سچی داستان ہے جو محرومی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہے۔ یہ محرومی اور ذلت معاشرے اور نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی دین ہے۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ان کے طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ غربت یا محرومی نہیں ہے بلکہ وہ تحقیر ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ بستی ہے۔ یہ کتاب ہمیں ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ دلت کمیونٹی، شیڈول ذاتیں، چمار، اچھوت اور دیگر ’نمانے لوک‘ ذات پات کے ایسے بے رحم نظام میں پھنسے ہیں جن میں وہ آزادی سے محروم ہیں۔ نہ شخصی آزادی ہے نہ سیاسی۔ بلبیر مادھوپوری کے نزدیک ذات پات کا یہ نظام خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ انسانوں کی ہی تخلیق ہے۔

یہ کتاب غربت کا بھیانک چہرہ بھی دکھاتی ہے۔ جس طبقے کو مساوات اور آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے وہ غربت میں دھنستا جاتا ہے۔ بلبیر مادھو پوری کا خاندان اور ان کی کمیونٹی کے دیگر لوگ انتہائی غربت میں جیون بسر کرتے ہیں۔ دادی مردہ جانوروں کا گوشت کھانے کا دور بھی یاد کرتی ہے۔ وہ لوگ مردہ جانوروں کی چربی کو گھی کی جگہ استعمال کرتے تھے۔

نچلی ذات کے لوگوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ گاؤں میں ان کی آبادی بھی ایک طرف الگ ہوتی ہے۔ وہ گرودوارے نہیں جا سکتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو نہیں چھو سکتے۔ ان کو انسان ہونے کا مقام بھی نہیں دیا جاتا۔

بلبیر مادھو پوری کے نزدیک دلت کمیونٹی کی مساوات اور برابری کے حصول کی یہ تحریک یتیم ہے۔ معاشرہ اس تحریک کا بھرپور ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی مذہبی یا سیاسی تحریک ایمانداری سے ذات پات کے نظام کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتی۔ ذات پات کے نظام کی جڑیں بدقسمتی سے بہت گہری سرایت کر چکی ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ اور دلت لٹریچر امریکہ کے کالے لوگوں کے لٹریچر سے مماثلت رکھتا ہے۔ دلت اور بلیک طبقے اپنے اپنے ممالک میں ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ دونوں طبقات کو عزت، آزادی اور قبولیت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب تھا کہ امریکہ میں ایک دن ایسا آئے گا کہ گوروں اور کالوں کے بچے ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ اسی طرح بلبیر مادھو پوری کا بھی خواب ہے کہ ایک دن ہندوستان میں ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ انسان اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور کردار سے جانچے جائیں گے۔ سب انسان برابر تصور کیے جائیں گے اور سبھی عزت و تکریم کے حقدار ٹھہریں گے۔

انیس سو اٹھاون میں جب مارٹن لوتھر کنگ ہندوستان آئے اور انہوں نے دلت لوگوں کی مصیبتوں کو جانا تو انہوں نے کہا کہ ’میں بھی ایک دلت ہوں کیونکہ ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں۔‘

’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر مادھوپوری ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ جب لوگ ذات پات کو مذہب اور خدا کی مرضی سے جوڑتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ ایسا مذہب جو انسانوں کی برابری نہیں چاہتا، جو مساوات اور انسانوں کی تکریم نہیں دیکھ سکتا تو پھر ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟

بلبیر مادھوپوری تعلیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ مظلوم طبقے کے پاس تعلیم کی سیڑھی ہے جو وہ بہتر جگہ پر پہنچنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ’چھانگیا رکھ‘ میں بلبیر کے بھائیا (والد) بھی چند ’اکھر‘ پڑھ کر محرومی اور ذلت کی دلدل سے نکلنے پر زور دیتے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ میں دیہاتی زندگی کے سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ دیہاتی کلچر دیکھنے والوں کے لئے بھی یہ کتاب بہترین تحفہ ہے۔

یہ کتاب ایک آئینہ ہے۔ اس میں ہمیں اپنے معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔ ظلم، طبقاتی کشمکش اور کمزور طبقات کی مجبوریاں جو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں وہ اس کتاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی عالمگیریت اس کتاب کی بڑی خصوصیت ہے۔

کتاب کی نثر میں روانی اور سادگی ہے۔ بلبیر مادھو پوری چونکہ شاعر ہیں تو نثر میں بھی شاعری کی مٹھاس اور موسیقی گندھی ہوئی ہے۔ دیہاتی رہن سہن سے لیے گئے استعارے بہت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے ہیں۔

’چھانگیا رکھ‘ پنجابی، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اسے پڑھیے اور اپنے ذہن کے دریچوں میں بلبیر مادھو پوری کی جلائی ہوئی شمع کی کرنیں بکھیرئیے۔ اور بلبیر مادھو پوری کے اس خوبصورت پیغام کو دل میں جگہ دیجیے کہ تمام انسان قابل عزت ہوتے ہیں اور محبت کرنے کے قابل بھی۔

چند دن قبل ’چھانگیا رکھ‘ پر ایک تعارفی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تو بلبیر مادھوپوری جی نے سوشل میڈیا کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا۔ وٹس ایپ پر ان کی کال آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پنجابی میں بات کر رہے تھے تو مجھے اپنے ہی گاؤں واسی لگتے تھے۔

میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ’چھانگیا رکھ‘ ایسی شاہکار کتاب کے مصنف میرے کانوں میں گیان گھول رہے تھے۔ انہوں نے میرے تجزیے کی تعریف کی۔ بابا فرید الدین کی شاعری پہ بات کی۔ اپنے گاؤں مادھوپور کے بارے میں بھی باتیں کیں۔ بتایا کہ بٹوارے میں جب مادھو پور کے مسلمان پریوار گاؤں چھوڑ کے نئے ملک کی طرف گئے تو مادھو پور میں افسوس کا یہ عالم تھا کہ گاؤں میں اس دن کسی نے کھانا نہیں پکایا تھا۔ محبت کی ایسی کہانیاں بلبیر مادھو پوری شاعری اور نثر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ سچے اور کھرے ادیب جو ٹھہرے۔

چھانگیا رکھ – بلبیر مادھوپوری کی آپ بیتی (پروفیسر احمد ںعیم چشتی) Read More »

error: Content is protected !!