Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں

google.com, pub-2362002552074221, DIRECT, f08c47fec0942fa0
Ch. Bakht Yar Zafar
Ch. Bakht Yar Zafar

کھڈیاں کہاں کھو گئیں
زمانے میں مدفن ہیں کتنے زمانے، زمانہ نگل گیا دست کی پوروں کے فن، رگ و ریشے میں خمیر زدہ ہنر، کوکون ریشم میں لپٹ کر دائمی حیات کے خواب بنتا ہے مگر وہی ریشم اسے موت کا پژمژدہ سناتا ہے، کوکون کو کیا خبر وہ ریشم کے پالا گیا ہے نا کہ پروانہ بن کر مٹنے کے لیے، کس کو خبر تھی کہ جولاہوں کا فن و ہنر انکا کاتنا انکا بننا انکا رنگنا سب پاورلومز کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو جاے گا۔مٹی کے کھلونے تراشنے والے کمہار، لنگی،پشمینہ، سلارا،کھیس،پٹو،گلوبند، بوٹھلا، لاچا، اونی چادر بننے والے جولاہے، لکٹری کی چارپائیاں، موڑھے بنانے والے ترکھان،مستری، لوہار معاشرے کو زینت بخشنے والے کسمپرسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان سے کم نرخ میں خرید کر آرٹ اور فیشن کے نام پر بیچنے والے تاجر بن گئے۔پاور لومز، اور نت نئی جدت کے داو پیچ پر مکٹری کے جالے بن کر، ایکسپورٹ، کے نام پر جولاہوں کا نسل در نسل کھڈیوں والا ہنر مرنے لگا ہے، ایک طرف صدیوں پرانا ہنر ہے جو وراثتوں میں منتقل ہوتا رہا ایک ہاتھ سے دوسرت تک فخر سے پہنچتا رہااب آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔
ہماری تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا نوح انسان، موہنجو داڑو، ہٹرپہ، حسن ابدال کے کھنڈرات، ٹھٹھہ، اجودھن،تاریخ طاہری کے مصنف کے بقول صرف ٹھٹھہ میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے کوریوں کے تھے،وادی سندھ میں قدیم عہد سے آج تک ایسی اشیاء تیار ہوتی رہی جو اہمیت کی حامل ہیں، سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا تھا جو کپاس اور ریشم کے دھاگے سے بنتا تھا اسکی تیا ری میں چرخے اور کات کا استعمال ہوااور اس چرخے لو صوفی شعراء نے اپنے کلام میں بھی استعمال کیا، تاریک کی کتب عیا ں کرتی ہیں کہ سندھ پاکستان میں سب سے پہلے کپڑا تیار ہوا پانچ ہزار سال قبل موہنجو داڑا کی تہذہب نے کپاس کی کاشت کی اور اس سے دھاگے بناے، یہ بات پایہ ثبوت ہے جس وقت بشر کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا پاکستان سندھ میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول کہکشاوں کی مانند کھلا کرتے تھے، جب دنیا درختوں کی چھال اور پتے پرو کر کمر سے باندھا کرتے تھے موہنجوداڑو میں ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں مصر میں جب کوئی فرعون مرتا تو اسکو کفن بھی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔میسو پوٹیمیا کے باسیوں نے جو خود کو قدیم تہذیب کے آباء مانے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان سندھ سے کپاس کے بیج دینے کی درخواست کی اور پہلی بار میسو پٹیمیائی باشندوں نے کھردری کھال کی بجائے کپاس کے نرم و گداز پیراہن کو زیب تن کیا۔اسی طرح جب سکندر اعظم اور یونانی پاکستان سندھ میں آے تو کپاس کو دیکھ کر ششدر رہ گئے،اور یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ لفظ کاٹن، کپاس اور کاتنے سے ماخوذ ہے جو قدیم پاکستان سندھ کی ایجاد ہے۔قائداعظم کے والد جناح پونجا بھی کھڈی کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
کھڈیاں ایک دیسی صنعت تھی اور اس دیسی ساخت صنعت نے اپنے عروج کی کئی بہاریں دیکھیں ہیں سستے زمانے کے لوگ دیسی او ر خالص طیبعت کے مالک ہوا کرتے تھے ان کے شوق بھی سندھی چادر کو گلے کا ہار بنا کے رکھنا ہوتا تھا، کھڈیوں سے بنا گلوبند مفلر بھی ان کا زیور تھا پنجابی فلموں میں لاچے، پٹو پہن کر ان کی خوب مارکیٹنگ ہوا کرتی تھی۔ یہ کھڈیاں اپنے عروج سے نہال تھیں تو اب اپنے زوال کی بھی تاریخ رقم کر رہی ہیں اس سے وابسطہ لوگ خوشحال ہوا کرتے تھے، اس کو چلانے کے لیے کسی بڑی بلڈنگ کی ضرورت قطعی نہیں ہوتی تھی، نہ سینکڑوں کاری گاروں کی فوج بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی تھی بس زمیں میں اڑھائی فٹ کا گڑھا کھودا ، ایک چھپر ڈالا، لکڑی کی ایک میخ زمیں میں گاڑی، دھاگا اس کے ساتھ باندھا اور کام شروع کر دیا
پاکپتن میں جولاہے اپنی کھڈیوں کی وجہ سے مشہور تھے،کھیس تو اب کنارہ کر گئے،اون کی بنی چادریں ااورانکا کھردری بنتر کا لمس جداگانا ہوتا تھا، ٹھٹھرتی سردی میں کھیس کی حدت کیا کمال تھی،پاکپتن مزاروں اورعقیدتوں کا شہر ہے اس میں کہانیا ں بستی ہیں، کھڈیاں بننے والے تاریخ کی ڈور چرخی پر لپیٹ کر تاریک رقم کرتے تھے مگر ہر صبح کھڈیوں کی تعداد گھٹا رہی ہے گھروں سے چرخے ختم ہو رہے ہیں تو گلیوں میں دھاگے رنگتے جولاہے کوئی اور ہی کام کی فکر میں نکل پڑے ہیں، پاکپتن میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے محلے گلیوں میں لگی کھڈیاں اور اس پر مرد و خواتین بیٹھی رچھ میں دھاگے ڈال کر نال میں ریلیں لگا نے میں محو ہوتی تھیں، مرد اپنے ہاتھوں سے رتھ کو کھینچ کر کپڑے کو داب دے رہا ہوتا تھا تو عورتیں کچن لے کر دھاگوں سے بل نکال رہی ہوتی تھیں مرد پیرڈی سے لنگی میں رنگ بھر رہا ہوتا تھا تو عورت طر پر بنے کپڑے کو لپیٹ رہی ہوتی تھی،مرد تھکتا تو عورت آدھلکھ کو دیکھ کر حوصلہ بڑھانے میں لگی ہوتی،فڑتا، لپنک، پھیرنی، کلا، کلارنا، رسن کھرک جولاہوں کے دلکش اوزار ہوا کرتے تھے، گٹیا ویلن پر بیٹھے جولاہیاپنے فن کی آبیاری کرتے دکھائی دیتے تھے۔ پاکپتن میں کھڈیاں شہرت کی حامل تھیں، محلہ حسن پورہ، کرم پورہ گڑھ تصور کیے جاتے تھے گرد و نواح میں یہا ں سے ایکسپورٹ کی جاتی تھیں
محلہ حسن پورہ میں کھڈیوں سے منسوب محمدرمضان جس کی عمر اور بینائی کھڈیوں پر کپڑا بنتے گئی اس سے جب پوچھا تو سوچوں کے بحر سو اس ک پاس اپنی بے بسی بیان کرنے کو الفاظ نہیں تھے، ساری حیات دوسروں کو ان کی منشاء کے مطابق دلکش و دلنشین لبادے اوڑھنے والا اب ایک وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہے بھیک مانگ کر زیست کی بچی ساعتیں گزار رہا ہے، محلہ حسن پورہ میں ہی ایک اور کھڈی سے منسوب محمد حسین وہ بھی اب بڑھاپے کی لاٹھی ہانکتا ہے اس کا بیٹا بشیر کھڈیوں کا پیشہ چھوڑ کر اب پاپٹر بیچتا ہے کیوں کے دھگے کی قلت اور روئی کے مہنگے ہونے کی بنا پر اس سے انکا گزر بسر ہونا نا ممکن ہے اس لیے اس نے یہ کام دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا، ان کے بتانے پر محمد نذیر چک کالے خان کے پاس گئے تو وہ آج بھی اپنے خاندانی پیشے پر بضد ہے کہتا ہے مر تو جاوں گا پر یہ پیشہ نہیں چھوڑ سکتا دو دن میں بمشکل تین گز لمبی اور پونے دوگز کی ایک چادر تیا ر ہوتی ہے جس پر پانچ سے چھ سو خرچہ آجاتا ہے مگر یہ روز نا بنتی ہے اور نا بکتی ہے کئی کئی دن انتظار کے بعد جا کر آٹھ نو سو کی بکتی ہے جو کہ نا کافی ہے۔محلہ کرم پورہ میں مقیم عبدالغفور سے ملے تو اس نے بتایا وہ بچپن سے اسی کام سے منسوب ہے باپ دادا بھی اسی کام سے پیوستہ تھے میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں بچے بیوی مل کے کھڈی پے کام کرتے ہیں جب ان سے پوچھا کہ اب اس شہر میں کتنے افراد اس پیشے سے جڑے ہیں تو اعداد و شمار سے دل بسمل سا ہو گیا کہ سینکڑوں لوگوں سے اب یہ فقظ پندرہ بیس لوگوں تک محدود ہو گیا ہے،اسی طرح ہوتہ روڈ پر ملک پور کے قریب روڈ پر کھڈی لگائے ایک اور عبدالقادرسارا دن کھڈی پر کام کرتا دکھائی دیتا ہے اس کی آنکھوں میں کتنے خواب ہیں مگر سب دفن کرکے بیٹھا اس فن کو زندہ کرنے کی سعی میں مگن، لوگ گزرتے ہوے اس کھڈی پر بنی دلکش و دیدہ زیب، آنکھو ں کو چندھیا دینے والی ورائٹی کو دیکھ کر ایک دم کو رکتے ہیں سیلفی بنواتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس صنعت سے منسوب سب کی بس ایک ہی حکومت سے گزارش تھی ان کو دھاگا مفت نا سہی سستے داموں فروخت کیا جاے، اور حکومت ہم سے خود خریدے، اس آخری سانسیں لیتی دیسی صنعت کو مرنے سے بچایا جاے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی راہ ہو لیتے ہیں پتھر کی مورت سے جبین کو لہو سے رنگنے کا کیا فائدہ، کبھی ایک انجانی امید کی ڈور حالات اور امید کی روح کے تانے بانے میں اریپ ڈال دیتی ہے دل چاہتا ہے اب پر سکوں دکھائی دیا جاے مگر وراثتی فن اور دستی صنعت کی اس بوسیدہ عمارت کی دیواروں کو خود گرا کر اس زندان سے نکل کر انگلیاں کاٹنے کو جی نہیں کرتا،چار سو کھڈیوں اور ریشم و اون میں جکڑی روح اس کے بنا شانت کیسے رہ سکتی ہے وہ کیسے چھوڑ دیں چرخہ کاتنا، کھڈی پر بننا، رنگنا وہ اپنے ہنر سے دستبردار ہونے کے خواہاں نہیں ہوں بھی تو کیوں کہ انہی کے فن نے تو تاریخ کو تحریک دی، ننگ بند ن کو لبادے دیے، گئے وقتوں میں دست کی پوریں کٹوا لیں مگر اصلاف کے فن کو نابیچا اور نا چھوڑا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!