February 2024

ایل سی کی سے کیا مراد ہے ؟ پاکستانی کتب خانوں کی ترقی میں اس کا کیا کردار ہے

ایل سی کی سے کیا مراد ہے ؟

تعارف کولمبو پلان :

ایل سی کی سے کیا مراد ہے ، پاکستان میں ایل سی کی کی کیا اہمیت ہے ، ایل سی کی کی رپورٹ کس نے اور کب پیش کی ، کولمبو پلان کیا ہے ، ایل سی کی اور کولمبو پلان کا آپس میں ربط کیا ہے ، پاکستان کی تعلیمی اور معاشی ترقی میں کولمبو پلان کی اہمیت کیا ہے، پاکستان کے کتب خانوں کی ترقی و ترویج میں ایل سی کی کی رپورٹ نے کس قدر اثرات مرتب کیے ، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جاننا ایک لائبریری سائنس کے طالب علم  کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ایل سی کی یا اس کی پیش کردہ رپورٹ کے متعلق جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ایل سی کی اور کولمبو پلان کیا ہے۔

کولمبو پلان کا قیام 

کولمبو پلان بنیادی طور پر ایک معاشی اور معاشرتی فلاحی پورگرام ہے اور یہ کولمبو پلان ایشیاء کی ترقی پذیر ملکوں کی مدد کے لیے ترتیب دیا گیا تھا ۔ یہ ایشیاء کی تاریخ کی سب سے پرانی علاقائی انٹر گورنمنٹل تنظیم ہے جو 1950 میں وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد ایشیائی ممالک کے معاشی اور معاشرتی ترقی کے پروگراموں میں مدد فراہم کرنا تھا ۔ کولمبو پلان سی لون کے مقام کولبمو میں اسی کی بنیاد رکھی گئی اور اسکا باقاعدہ افتتاح  1 جولائی 1951 میں آسٹریلیا ، کینڈا ،بھارت، پاکستان، سری لنکا، یو کے اور نیوزی لینڈ کے اشتراک سے وجود میں آیااب اس میں دیگر کئی ممالک مزید شامل ہو گئے ہیں، جن کی تعداد اب 28 تک پہنچ چکی ہے جن میں نان کامن ویلتھ تنثظیم ،آسیان اور سارک بھی شامل ہیں۔ 

کولمبو پلان  بھارت کے سفارت کار کے ایم پاٹیکر نے برطانوی اور آسٹریلیا کے سفیروں کو کثیر جہتی فنڈ ز کے قیام کی تجویز دی تھی اور اسی تجویز کی روشنی میں 1950 میں برطانوی وزیر خارجہ ارنسٹ ہیون نے سلیون ، کولمبو کے مقام پر دولت مشترکہ کے تمام وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی  کی نمائندگی کی تھی۔ اور اس اجلاس میں اس پلان کی منظوری چھ سال کے لیے دی گئی تھی ، بعد میں اس پلان کو کئی مرتبہ مزید آگے بڑھایا گیا۔  

L.C KEY
1903-1982

پاکستان کے ابتدائی مسائل

کولمبو پلان کے متعلق اتنا ہی بتانا مقصود تھا کیونکہ ایل سے کی ہمارا بنیادی موضوع ہے اور ایل سی کی اسی کولمبو پلان کے تحت ہی پاکستان آیا تھا ۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا تو اسے ابتدائی کئی مسائل ورثے میں ملے جن میں ایک اہم مسلئہ یہ بھی کہ ہندو لائبریرین بھارت کی جانب ہجرت کر گئے اور جانے سے قبل بہت سے کتب خانوں کا سامان اور کتب بھی ساتھ لے گئے جو نا لے جاسکے تو بقیہ کو تباہ کر گئے یوں پاکستان میں لائبریریوں کو نہ صرف نقصان پنہچا بلکہ لائبریری کا قحط بھی پیدا ہو گیا اور پاکستان کو تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کے لیے از سر نو کتب خانوں کی بحالی کا چیلنج تھا ۔ چونکہ 1950 میں ایشئائی ملکوں کے لیے کولمبو پلان وجود میں آ چکا تھا اور اس کے ابتدائی ممبر ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا تو حکومت پاکستان کی درخواست پر کولمبو پلان کے پلیٹ فارم سے ایک وفد پاکستان بھیجا گیا جس کا بنیادی مقصد کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی کے لیے ایک جامع پلان حکومت پاکستان کو مرتب کر کے دینا تھا ۔

مسٹر ایل سی کی 

مسٹر ایل سی  1903 میں پیدا ہوئے ، اور شعبہ کتب خانہ کو جوائن کیا اور اپنے دور میں وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔  جب ان کی وفات ہوئی تو وہ دو عہدوں پر کام کر رہے تھے ۔مسٹر کی دونوں اداروں کی ترقی سے وابستہ تھے۔لیونل کورٹنی سینٹ ایوبن کی، ایم بی ای، بی اے، ایل اے اے، اور  ڈپٹی لائبریرین آف دی کامندولت پارلیمانی لائبریری 1947 سے 967، حال ہی میں ایک طویل عرصے کے بعد کیسل ہل میں انتقال کر گئے۔ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ الزبتھ ہیں، اس کے بچوں اور تین پوتے پوتیوں ہیں۔مسٹر کی، اپنے شعبہ کے  اندر بہت سے دوستوں کو جانتے ہیں۔ وہ لائبریری کا پیشہ اور باہر کورنے کے طور پر، ان چھوٹے لیکن پرجوش اور پیشہ ور لائبریرین میں سے ایک تھے جو 1937 میں آسٹریلین انسٹی ٹیوٹ آف لائبریرین بنانے کے لیے اکٹھے ہوئےکے پیشرو تھے،  آسٹریلیا کی لائبریری ایسوسی ایشن (1949 میں۔ وہ 1940/41 میں انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سکریٹری کے طور پر بہت سرگرم تھے۔ جو اس کی تیسری سالانہ کانفرنس تھی۔ کینبرا میں، اور بعد میں صدر کے طور پر وہ کینبرا برانچ میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔

مسٹر کی طویل، متنوع اور ممتاز ہیں۔لائبریرین شپ میں کیریئر صرف صحیح طریقے سے ایمانداری سے سر انجام دیا جائے تو عزت رتبہ مقام سب ملتا ہے ہو سکتا ہے۔ مسٹر کی جب دولت مشترکہ کی پارلیمانی لائبریری کو ماڈل بنارہے تھے اور اس کے ساتھ لائبریری آف کانگریس میں ، سینیٹرز اور ممبران کی معلوماتی ضروریات کو پورا کرنے ک
ے اپنے بنیادی کام کے علاوہ،کے لیے اور قومی لائبریری کی خدمات کو ترقی دینے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔ مسٹر کی نے ایک اہم شراکت کی ان قومی خدمات کے لئے، اگرچہ وہبلکہ پارلیمنٹ میں ان کی براہ راست خدمات کے لئے سب سے بہتر یاد کیا جائے گا جہاں ان کا کیریئر تھا (1925 میں اور 1967 میں ختم ہوا۔ ان کی
خدمت لندن میں نیشنل لائبریری کے ساتھ شروع ہوئی 1944 سے 1948 تک اس کا پہلا نمائندہ ہے۔
انہوں نے امریکہ کی طرز پر پہلی آسٹریلین انفورمیشن لائبریری بھی قائم کی۔انہوں نے آسٹریلیا سے متعلق ریکارڈز کی مائیکرو فلمنگ کی نگرانی کی۔نیشنل لائبریری اور پبلک کے درمیان 1945 کے معاہدے کے تحت پیسفک نیو ساؤتھ ویلز کی لائبریری۔

جب یونیسکو کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا پیرس میں آسٹریلوی وفد کے رکن تھے اور بعد میں آسٹریلیا میں لائبریریوں کے لیے یونیسکو کمیٹی کے رکن بنے۔1948 جب مسٹر کی نیشنل لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین تھے تو ان کے شاندار تجربہ کی روشنی میں ایشیائی ممالک کے ثقافتی امداد کے فعال پروگرام میں نامزد کیا گیا ۔ ہندوستان، انڈونیشیا اور فلپائن کے لائبریرین کے لیے 1952 کا آسٹریا کا سیمینار اسی کا حصہ تھا۔ یہ مسٹر کی کے مشورے سے 1954/5 میں عمل کیا گیا۔ برما، بھارت، نیپال ، ہندوستان، اور پاکستان کی گورنمنٹ اور لائبریری حکام سے مسٹر کی سب سے ملے.

مسٹر ایل سی کی 1954/55 میں کولمبو پلان کے تحت  چھ رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کے لیے اپنے قیام کے دوران شب روز محنت سے کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی کے لیے حکومت پاکستان کو ایک جامع رپورٹ1956 میں پیش کی تھی ۔ اس رپورٹ میں نئے کتب خانوں کے قیام کا ایک خوبصور ت جامع پلان تھا  جن میں مسٹر ایل سی کی  کے مطابق پورے پاکستان مٰں 36 کتب خانے فل فور بنائے جائیں جن میں ایک قومی لائبریری ہو اور دو صوبائی سطح پر لائبریریاں بنائی جائیں ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا اور تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان میں موجود 20 کالجز میں اور ایک خصوصی لائبریری فوری طور پر تیار کی جائے ۔ یہ 1956 میں اس وقت پاکستان کے لیے ایک شاندار رپورٹ تھی اور ایک جامع پلان تھا اگر اس پر اس وقت عمل ہوتا تو پاکستان تعلیمی میدان میں آج دنیا کا مقابلہ کر رہا ہوتا مگر اس پلان کو سرد خانے میں ردی کی ٹوکری میں ڈال کر موت مر دیا گیا۔ بعد میں اسی رپورٹ کی روشنی میں 1959 میں حکومت کو خیال آیا تو ایک نیا پلان ترتیب دیا گیا جس کے مطابق  ہر صوبے میں صوبائی سطح پر ایک لائبریری ، ڈویژن ، ضلع، تحصیل اور سب تحصیل سطح پر کتب خانوں کی تجویز دی گئی مگر اس پر کس حد تک عمل ہوا ا س سے آپ سب واقف ہیں ۔

1961 میں مسٹر کی مکمل وقت پر واپس آئےپارلیمنٹ کی خدمت جو ان کی پہلی محبت تھی۔اپنی لائبریرین شپ کیڈٹشپ میں گریجوائیشن میلبورن یونیورسٹی سے مکمل کی۔اورمسٹر کی قانون سازی حوالہ جاتی خدمات کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔انہوں نے یہ کام اس وقت کیا جب پارلمیانی لائبریری سروس صرف کتابیں پڑھنے تک محدود  یہ تھی۔1966 میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ لیجسلیٹوریسرچ سروس میں حصہ لیا انکی کی بہترین خدمات میں سے آسٹریلیا میں یہ ان کی نمایاں اور منفرد سروس تھی جس کے وہ بانی تھے۔1967 میں ان کی ریٹائرمنٹ  کے موقع پر ان کا ایم بی ای کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مسٹر ایل سی کیا آسٹریلیا کی لائبریرین شپ کی تاریخ میں سب سے نمایاں ہیں۔ ان کی وفات سڈنی میں بروز جمعہ 26 نومبر 1982 کو ہوئی۔

 

۔

 

ایل سی کی سے کیا مراد ہے ؟ پاکستانی کتب خانوں کی ترقی میں اس کا کیا کردار ہے Read More »

کتاب اور کتب خانے (آغوش کالج لائبریری مری) از محمد یونس انصاری

Ayub Ansari

 محمد یونس انصاری

[email protected]

کتاب اور کتب خانے

تعارف۔لائبریری آغوش کالج مری

      کتاب کی اہمیت ہماری زندگی میں  بہت زیادہ ہے ۔ یہ کتاب ہی تو ہے جو ہمیں برے بھلے میں تفریق کرنا سکھاتی ہےاسی نے ہمیں شعور بخشا ،علوم سے آگہی اور غورو فکر کی ترغیب دی ۔ کتاب کے مطالعہ سے  ہی انسان میں شعور بیدار ہوتا ہے ، علم و آگہی ملتی ہے بلکہ یہ کہنا  زیادہ مناسب ہو گا  کہ دل و دماغ کو سکون اور طمانیت کا خوشگوار احساس بھی ہو تا ہے ۔تسکین قلب حاصل ہوتی ہے ۔مطالعے کےعادی لوگ جب تک مطالعہ نہ کر لیں ان کو چین نہیں بنتا۔کتاب پڑھنے سے سرور حاصل ہو تا ہے۔کتابوں کے مطالعہ سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے ۔ 

آج کے دور میں جو بھی ترقی ہوئی ہے یا ہو رہی ہے وہ  مرقوم علم اور کتابوں کی بنیاد پر ہی ہو رہی ہے۔ کتب بینی انسان کی معلومات میں اضافہ کا موجب بنتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ  جدید دور میں مطالعے کے لیےنئے نئے ذرائع  متعارف کروائے جا رہے ہیں ۔کتاب کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے لے لی ہے ۔ اب ہاتھ میں  جدید ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے کتاب  اور کتب بینی سے دوری اختیار ہوتی نظر آ رہی ہےمگر یہ کہنا بے جا نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔کتاب وہ سہارا ہے جو اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہے ۔ جب رنج و الم کے گہرے بادل ہماری زندگی کو تاریک کر دیتے ہیں تو یہ روشنی کی کرن بن کر ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔

کتب خانہ یعنی لائبریری تعلیمی اداروں میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے یہ درس و تدریس کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے جس میں طلبا کی ذہنی، سماجی اور اخلاقی پرورش شامل ہے۔کتب خانہ تدریسی عمل میں اساتذہ کے پڑھنے اور پڑھانے کی استعداد، شخصیت میں نکھار اور اس کی اعتماد اسازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔کتب خانہ انسانی زندگی اور خصوصاً طلبا و طالبات کی علمی اور عملی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔کتب خانہ نئے نقطہ نظر متعارف کرانے میں مدد گار ثابت ہوتا پے جو تحقیقی و اختراعی معاشرے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہےاور آنے والی نسلوں کے لیے ذریعہ تخلیق اور جمع کردہ مستند علمی مواد کو محفوظ کو  بنانے کے لیےممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

لائبریری طلبہ کے مابین   تعلیمی رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،جہاں بچے بیٹھ کر کتابیں ، رسالے اور اخبارات پر سکون ماحول میں پڑھتے ہیں۔اب جب کہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اس دور میں بھی کتب خانوں کاکوئی متبادل نہیں ہے۔کتب خانہ طلبا کی فکری سوچ اور سمجھ کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ایک اچھے اور منّظم کتب خانے کے بغیر کسی بھی تعلیمی ادارے کا وجود ایسے ہی ہے جیسے بغیر روح کے جسم۔مطالعے ،تحقیق اور تحقیقی کارنامے کتب خانوں کی ہی مرحون منت ہیں اس لیے اسکولوں میں کتب خانوں کا وجود وقت کی اہم ضرورت اور ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔

تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کوئی تعلیمی درسگاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضروریات محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہذا علمی وتحقیقی ضروریات پوری کرنے کیلئے اضافی کتب کا ہونا ضروری ہے۔ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں لہذا یہ بات  وثوق سےکہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ تعلیمی ادارے سے نکلتا ہے وہ کتب خانےمیں آکر ختم ہو جاتاہے۔

سوشل میڈیا کی بدولت زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا ہے ،دنیا  گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ترجیحات بدل رہی ہیں ، نت نئی سائنسی ایجادات سامنے آ رہی ہیں اور تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں سائنس نے انقلاب برپا کر  دیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع  ابلاغ کی مرہون منت ایک طرف تو یہ نوید سنائی جا رہی  ہےکہ مطالعہ کا رجحان کم ہو گیا ہے لیکن دوسری طرف کتابی دنیا میں  ای پیپر ، پی ڈی ایف  اور ڈیجیٹل کتب نے حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیا ہے۔اس انقلاب نے تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں کے لیے بہت سی آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں ۔تازہ ترین رجحانات، تخلیقات اور تحقیقات تک رسائی حاصل کرنا کسی بھی علمی ،ادبی اور تحقیقی فرد کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کی ضرورت کو پورا کرنے اور ان کے ذوق کی آبیاری کے لیے ای لائبریریاں ایک بہترین فورم ہیں۔

تعلیمی میدان میں قومی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ  دکھانےمیں آغوش کالج مری سر فہرست ہے ۔آغوش کالج یتیم بچوں کا کیڈٹ ساز  اقامتی ادارہ ہے جو کہ مئی 2019 سے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں   کے حوالے سے بہتریں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔پاکستان بھر سے کلاس ششم  میں داخلےکے لیے بچوں کا امتحان لیا جاتا ہے جس میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کا انتخاب کیا جاتاہے۔

بچوں میں  مطالعہ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے مختلف سر گرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔لائبریری میں باقاعدہ کلاسز  منعقد ہوتی ہیں جس میں بچوں کو مطالعہ کرنے کا طریقہ،  اہمیت ،ڈائری کیسے لکھی جائے ، نوٹس کیسے لیے جائیں اور اخذ کردہ معلومات، مطالعے کو کیسے دیر پا محفوظ رکھا جائےوغیرہ سے متعلق رہنمائی دی جاتی ہے جس کی بدولت بچوں میں لائبریری  اور کتب استعمال کرنے کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا ہو رہی ہے۔ مختلف مقابلہ جات کی تیاری کے لیےبھی لائبریری ہر ممکن کردار ادا کر رہی  ہے۔ہر سال کالج میں کتاب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس سے طلبہ بھر پو ر استفادہ کرتے ہیں ۔کتب خریدکر  اپنے دوستوں، ہم جماعتوں کو تحفۃً پیش کرتے ہیں۔واضح رہے کہ لائبریری میں ایک ہزار سے زائدمتنوع  کتب کا  ذخیرہ موجود ہے۔ بچے ہر موضوع  سے متعلق کتب کا مطالعہ کرتے ہیں،  خاص کر قرآن پاک، تفاسیر،سیرت النبیؐ، تاریخ ،سائنس ، ادب، سیرت صحابہ اورتحریک پیدا کرنے والی کتب سر فہرست ہیں۔حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے مختلف رسائل و جرائد اور انگریزی اردواخبارات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔لائبریری میں مختلف موضوعات پر اہل علم حضرات کے لیکچرز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔بچوں میں تخلیقی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف کلب بنائے  گئےہیں جن میں رائٹرز کلب،سپیکرز کلب، سائنس کلب سر فہرست ہیں۔بوقت ضرورت نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں پر مشتمل سمعی و بصری ویڈیوز بھی دکھائی جاتی ہیں۔

 سافٹ ویئر استعمال کیا جا رہاہے۔ LIMS  جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیےلائبریری کوکمپیوٹرائزڈ کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔اس مقصدلیے 

 ای لائبریری کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ای لائبریری کے قیام سے  PDFمیں دستیاب کتاب کےمطالعہ  کی سہولت بھی طلبا    حاصل کر پائیں گے ۔طلبا کے لیےلیپ ٹاپ بھی  فراہم کیے جائیں گے  جن سے لائبریری کا OPAC استعمال کرتے ہوئے کتاب کو تلاش کر سکیں گے ۔  لائبریری کو مختلف لائبریریوں سے لنک کیا جا ئے گاجس سے طلبا و اساتذہ کے لیے دیگر کتب خانوں  کے  موادسے استفادہ  بھی ممکن ہو سکے گا۔ Union Catalogue کا عمل بھی  ممکن ہے۔

 

محمد یونس انصاری

لائبریرین آغوش کالج مری

 اسلام آباد۔مری ایکسپریس وے

کتاب اور کتب خانے (آغوش کالج لائبریری مری) از محمد یونس انصاری Read More »

L. C Key Report about Libraries (Colombo Plan for Pakistan)

THE COLOMBO PLAN
The history of the Colombo Plan for Cooperative Economic and Social Development in Asia and the Pacific, is one of the oldest regional inter-governmental organizations dates far back as 1950, when the idea was first conceived to enhance economic and social development of the countries of the region. The Colombo Plan was established on 1 July 1951 by Australia, Canada, India, Pakistan, New Zealand, Sri Lanka and the United Kingdom and currently has expanded to 28 member countries including non-Commonwealth countries and countries belonging to regional groupings such as ASEAN (Association of South-East Asian Nations) and SAARC (South Asian Association for Regional Cooperation). The Colombo Plan is a partnership concept of self-help and mutual-help in development aimed at socio-economic progress of its member countries.

L.C KEY REPORT FOR DEVELOPMENT OF LIBRARIES IN PAKISTAN

Consequently, L. C. Key of Australia was invited under the
Colombo Plan, to prepare a library development plan for the country. Key submitted his report in 1956 (Key, 1956). The Key Plan did not materialize; yet it did influence the thinking of librarians in the country. This is evident in library developments that took place in the second-half of 1950s, particularly at Karachi, the then capital of the country. Of these developments, mention may be made of the formation of Pakistan Library Association (PLA) and the establishment of Pakistan National Scientific and Technical Documentation Center (PANSDOC), both in 1957, launching of publication of Pakistan Library Review (1958), and the promulgation of Basic Democracy Order (1959). But the most important event of this decade was the institution of Post-Graduate
Diploma Course in Library Science in August 1956 at the University of Karachi, followed by the University of the Punjab in 1959.

GOVT: ROLE FOR THE DEVELOPMENT OF LIBRARIES IN PAKISTAN
Since its independence no scheme for the development of Libraries was devised to develop the Libraries on modern lines. Several commission have been set up by the Government to conduct surveys by the experts but all of them got go nothing. In 1949 Late Dr. Abdul Moid prepared a plan known as “NATIONAL PLAN FOR LIBRARY SERVICES IN PAKISTAN” in which 3200 Libraries were recommended on national leve l and one each for provincial head quarter, regional district and municipal town and even mobile libraries for remote areas were also suggested, but the Government had not taken any interest in this regard. In 1956 Mr.L.C Key has prepared report under the scheme of the colombo plan known as” report and proposal on the establishment and improvement of Library service in Pakistan” in this proposal some 36 Libraries were recommended as one National Library two provincial and one for each university 20 for colleges and one special Library was proposed, but the Government has thrown the report in the cold storage.In 1959 a special scheme was organised by the Govt: of Pakistan to establish public library system, with the justification that each province, division, district, tehsil and union c ouncil will be provided with a library. To some extent the scheme has been implemented. In 1980 on the advice of Ex president of Pakistan General Muhammad Ziaul Haq technical working group was constituted by the ministry of Education under the chairmanship of Dr. Anis Khurshid with the member of each province and Federal area. The group visited remote and unapproachable areas of the country, cond ucted interviews/survey programmes and prepared a comprehensive report. It was suggested that 8,000 libraries will be established in the six five year plan, but the scheme has not been implemented. Although the Govt: has established National Library Islamabad and Provincial Library in each Provincial Headquarter.

L. C Key Report about Libraries (Colombo Plan for Pakistan) Read More »

error: Content is protected !!